سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(443) شوہر کا اپنی بیوی سے چار مہینے یا اس سے زیادہ مدت کے لیے غائب رہنے کا حکم

  • 19291
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 712

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن نے آدمی کے لیے اپنی بیوی سے غائب رہنے کی مدت چار مہینے مقرر کی ہے مجھے سال گزرنے سے پہلے اجازت نہیں ملتی اور کبھی تو سال سے بھی زیادہ وقت گزر جا تا ہے۔میرے متعلق کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تو یہ ہے کہ سائل کا یہ کہنا کہ قرآن نے شوہر کے اپنی بیوی سے غائب رہنے کی مدت چار مہینے مقرر کی ہے یہ غلط بات ہے قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے اس میں تو صرف ان لوگوں کے لیے مدت مقرر کی گئی ہے جو اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں اور ایلا کرنے والا وہ آدمی ہوتا ہے جو قسم اٹھا لیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے مجامعت نہیں کرے گا اس کی مدت اللہ نے چار مہینے مقرر کی ہے  چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لِلَّذينَ يُؤلونَ مِن نِسائِهِم تَرَبُّصُ أَربَعَةِ أَشهُرٍ فَإِن فاءو فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٢٢٦﴾... سورة البقرة

"ان لوگوں کے لیے جو اپنی عورتوں سے قسم کھالیتے ہیں چار مہینے انتظار کرنا ہے۔پھر اگر وہ رجوع کر لیں تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔"

رہا شوہر کا اپنی بیوی سے غائب رہنا پس اگر تو اس کی بیوی اس کے غائب رہنے پر راضی ہے تو اس کے لیے چار مہینے یا چھ مہینے یا ایک سال یا دوسال غائب رہنے میں کوئی نقصان نہیں ہے بشرطیکہ اس کی بیوی پر امن ملک میں ہو۔ پس جب اس کی بیوی پر امن ملک میں نہ ہو تو اس کے خاوند کا اس کو ایسے ملک میں چھوڑ کر جو پر امن نہیں ہے سفر کرنا حلال نہیں ہے اور جب وہ پر امن جگہ میں تو ہو لیکن وہ اس کے چار مہینے یا چھ مہینے حاکم کے فیصلے کے مطابق غائب رہنے پر راضی نہیں ہے تو اس کے لیے غائب رہنا حلال نہیں ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کرے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 379

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ