السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک بیوی ا پنے خاوند اور بچوں کے حقوق اور گھر کےکام کاج سے عاجز آگئی ہے،وہ چاہتی ہے کہ اس کی کوئی خادمہ ہو تو کیا اس کا شوہر اس کو خادمہ رکھ دے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نوکرانی رکھنے کا مسئلہ فخر وتکبر کے اظہار کا ذریعہ بن چکاہے اگرچہ بیوی کو اس کی ضرورت نہ بھی ہو۔اکثر اس سے صاحب خانہ،اس کے جوان بیٹوں اور نوکرانی کےدرمیان زناکاری جیسے بڑے بڑے فتنے پیدا ہوتے ہیں۔ایسے ہی مرد نوکروں کو گھر میں رکھنے سے گھر کی عورتوں کے لیے فتنہ کھڑا ہوتا ہے لہذا انتہائی ضرورت کے بغیر گھروں میں نوکرانیاں نہیں رکھنی چاہییں،اور پھر نوکرانیوں کے ساتھ ان کے محرم بھی ہونے چاہییں۔مذکورہ عورت گھر کے کام کاج کی کثرت کی وجہ سے خادمہ رکھنا چاہتی ہےخاوند کو کسی قدر مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے کہے:میں ایک اور مسلمان خاتون سے شادی کرنے والا ہوں جوگھر کے کام کاج میں تیرا ہاتھ بٹائے گی اس وقت یہ بیوی خادمہ رکھنے کے مطالبے سے دست بردار ہوجائے گی۔
اور فی الحقیقت یہ ایک نفع مند علاج ہے جو مرد کو فائدہ دے گا،پس جتنی زیادہ بیویاں ہوں گی اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہے اور جب آدمی ان کے حقوق ادا کرسکتا ہوتو اس کے لیے متعدد بیویاں ایک بیوی پر اکتفا کرنے سے بہتر ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة"[1]
"محبت کرنے والی،زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرو کیونکہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر کثرت ظاہر کروں گا۔"
اور جب انسان كو دو بیویوں میں کھڑے ہونے والے معاملات کا ڈر ہوتو ہم اس کو کہتے ہیں:تیسری بیوی لے آؤ،پہلی دو بیویوں کاجھگڑا ٹھنڈا پڑ جائے گا اور یہ عام مشاہدے کی بات ہے،اسی لیے لوگ کہتے ہیں:تین بیویوں والے دو بیویوں والوں سے زیادہ آسانی میں رہتے ہیں اور اگر تین بیویوں میں بھی جھگڑا شروع ہوجائے تو ہم چوتھی لے آتے ہیں۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث(3227)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب