السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر بیویاں اپنے خاوندوں سے بھاری مطالبے کرتی ہیں کہ بعض اوقات ان کے مطالبے پورے کرنے کے لیے اس بیچارے کو قرض اٹھانا پڑتاہے اور بیویاں اس کو اپنا حق سمجھتی ہیں ۔کیایہ صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بری معاشرت ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿لِيُنفِق ذو سَعَةٍ مِن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيهِ رِزقُهُ فَليُنفِق مِمّا ءاتىٰهُ اللَّهُ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا ما ءاتىٰها سَيَجعَلُ اللَّهُ بَعدَ عُسرٍ يُسرًا ﴿٧﴾... سورةالطلاق
"کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہئے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہئے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی وفراغت بھی کر دے گا"
لہذا مرد جتنے خرچ کی طاقت رکھتا ہو بیوی کو اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا حلال نہیں ہے اور اگر وہ طاقت رکھتا ہو پھر بھی اسکے معروف معمول سے زیادہ طلب کرنا حلال نہیں ہے۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ...﴿١٩﴾... سورةالنساء
"ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔"
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ... ﴿٢٢٨﴾... سورةالبقرة
"اور معروف کے مطابق ان(عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے۔"
اور ایسے ہی خاوند کے لیے اپنے ذمہ واجب خرچ کو روکنا حلال نہیں ہے کیونکہ بعض خاوند اپنی سخت بخیلی کی وجہ سے اپنے اوپر واجب خرچ بھی اپنی بیوی پر نہیں کرتے ہیں،ایسی حالت میں عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوند کےمال سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے لے لیاکریں،چاہے اس کو علم نہ ہو۔ہند بنت عتبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی کہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بخیل آدمی ہے وہ ان کو ا تنا خرچ بھی نہیں دیتا جو ان کو اور ان کے بچوں کے لیے کافی ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوکہا:
" خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ "[1]
"تو احسن انداز میں اتنا مال لے لیا کرو جو تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔"
(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(5049)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب