السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہےجس نے لاعلمی میں اپنی بیوی کو دبر میں مجامعت کی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آدمی پر اپنی بیوی کی دبر میں جماع کرنا حرام ہے۔جس شخص سے کسی طرح کی لاعلمی کی وجہ سے یہ کام ہوا تو وہ معذور ہے اور اس کو معافی ہوگی بشرط یہ کہ وہ اس کی حرمت کا علم ہونے کے بعد اس سے باز آگیا ہو۔عورت کی دبر میں وطی کے حرام ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو احمد ،بخاری اور مسلم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ بلاشبہ یہودی کہا کرتے تھے:
"جب عورت کی دبر کی جانب سے اس کی قبل(اگلی شرمگاہ) میں وطی کی جائے اور عورت حاملہ ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ بھینگا ہوگا۔"
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:پھر یہ آیت اتری:
﴿نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم...﴿٢٢٣﴾... سورةالبقرة
"تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں،سو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ۔"
اور مسلم نے زیادہ کیا ہے:() کا مطلب ہے اگر چاہے تو اس کو منہ کے بل لٹا کر مجامعت کرے اور چاہے تو سیدھا لٹا کر،سوائے اس کے یقیناً جب مجامعت قبل(اگلی شرمگاہ) میں دبر کی جانب سے ہوگی اس حال میں کہ عورت منہ کے بل لیٹتی ہوتو بچہ بھینگا پیدا ہوگا۔
مذکورہ آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آدمی کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ مجامعت کرنے کی کوئی بھی حالت اختیار کرنا جائز ہے چاہے تو اسے گدی کے بل لٹا لے یا منہ کے بل الٹا لٹالے،البتہ وطی عورت کی قبل(اگلی شرمگاہ) میں ہی ہونی چاہیے۔دلیل اس کی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فہم ہے اور وہ عرب ہیں۔اللہ نے عورتوں کا نام کھیتی اس لیے رکھا ہے کہ اس سے اولاد کی امید کی جاتی ہے جبکہ دبر میں وطی کے ذریعہ اولاد کی امید نہیں کی جاتی۔مذکورہ آیت کے سبب نزول کے متعلق جو بیان کیا گیا ہے کہ پیچھے سے وطی کرنے سے جوحمل ہوتا ہے تو وہ بچہ بھینگا ہوتاہے،حالانکہ دبر میں وطی کرنے سے بالکل حمل نہیں ہوتا نہ بھینگا نہ غیر بھینگا۔احمد اور ترمذی نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ " (البقرۃ:223) کے متعلق مروی ہے یعنی مجامعت(سیدھی جانب سے ہو یا الٹی جانب سے) ایک ہی سوراخ (یعنی اگلی شرمگاہ) میں ہونی چاہیے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ایک یہ روایت ہے اس کے علاوہ متعدد احادیث مروی ہیں جن میں آدمی کو اپنی بیوی کی دبر میں وطی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔اس میں سے ایک روایت وہ ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیاہے اور ایک وہ ہے جس کو احمد نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا تأتوا النساء في أعجازهن " [1]
"عورتوں کی پچھلی شرمگاہوں میں وطی نہ کرو۔"
أدبارهن"ان کی دبروں(میں وطی نہ کرو)"
اور ایک روایت وہ ہے جس کو ا حمد اور تر مذی نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کیا ہے،کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
{ إن الله لا يستحي من الحق، لا تأتوا النساء في أدبارهن}}[2]
"اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے حیا نہیں کرتے(لہذا سنو!) عورتوں کے چوتڑوں(دبروں) میں مجامعت نہ کرو۔"
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:یہ حدیث حسن ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔ضعیف سنن الترمذی رقم الحدیث(1164)
[2] ۔حسن صحیح الترغیب والترھیب(314/2)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب