سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(428) عورت کی دبر میں مجامعت کرنے والے کا حکم

  • 19276
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1729

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سائلہ کہتی ہے:میں اپنے خاوند کے متعلق کیاکروں؟وہ میری دبر میں مجامعت کرنا چاہتا ہے۔جب میں اس سے ا نکار کرتی ہوں تو وہ مجھے کہتا ہے۔ اب میں تیری دبر میں مجامعت نہیں کروں گا لیکن جماع کے وقت وہ پھر اسی طرح کرتاہے،میں نے اسے کہا:مجھے طلاق دےدے لیکن جب میں اسے یہ کہتی ہوں تو وہ مجھے مارتا ہے اور میرے پاس اس کے بچے بھی ہیں،لہذا میں کروں تو کیا کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غالب گمان یہ ہے کہ وہ اس عورت سے پچھلی جانب سے جماع کرتا ہے اور دبر میں جماع کرنا وہ اس طرح کہ آلہ تناسل کا اگلا حصہ عورت کی دبر،یعنی دبر کے حلقے میں داخل ہوتو یہ حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اہل علم کا یہی مذہب ہے۔بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس شخص پر لعنت  فرمائی ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں مجامعت کرے ۔یہ حدیث ترمذی وغیرہ میں موجود ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

(( مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا )) .[1]

"جس نے عورت کی دبر میں مجامعت کی وہ معلون ہے۔"

رہا بغیر دخول کے دبر سے مباشرت کرنا تو میں اس عورت کے خاوند کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس چرواہے کی طرح نہ بنے جو چراگاہ بکریاں وغیرہ چراتا ہے لیکن اگر وہ ایساکرتا ہے اور اسی پر اکتفا کرتاہے تو یہ بالاتفاق جائز ہے لیکن اگر وہ دبر  میں دخول کرنا چاہتا ہے تو اس سائلہ پر واجب ہے کہ وہ اس کی بات نہ مانے کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔اس کو اپنے خاوند سے اس گناہ میں موافقت کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اگر وہ دونوں متفق ہوکر اس نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں تو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ   نے فرمایا ہے:

"لائق یہ ہے کہ ان دونوں میں جدائی کروادی جائے۔"

مگر سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف  پیچھے سے مباشرت کرتاہے مجامعت نہیں کرتا کیونکہ دبر کے حلقے کا  گوشت تنگ ہونے کی وجہ سے دبر میں جماع کرنا بہت سی تکلیفوں کا باعث بنتا ہے۔(محمد بن عبدالمقصود)


[1] ۔حسن سنن ابی داود رقم الحدیث(2162)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 367

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ