سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(426) ہوٹلوں اور میرج ہالوں میں شادی وغیرہ کی تقریبات کا حکم

  • 19274
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 900

سوال

(426) ہوٹلوں اور میرج ہالوں میں شادی وغیرہ کی تقریبات کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ جناب کی ان  تقریبات کے متعلق کیارائے ہے جو ہوٹلوں میں منعقد کی جاتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ  تقریبات جو ہوٹلوں میں منعقد کی جاتیں ہیں ان میں کئی غلطیاں اور قابل گرفت باتیں ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ یقیناً ان تقریبات میں غالباً بلا ضرورت فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے۔

دوسری بات ٹل وغیرہ میں تقریب منعقد کرنے سے مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے اور یہ اختلاط بہت برا اور منکر ہے اسی بنا ء پر کبار علماء کونسل نے جلالۃ الملک کی خدمت میں ایک قرارداد پیش کی جس کا مضمون یہ ہے:

"اس بات کی نصیحت کہ ولیمے اور شادیوں کا ہوٹلوں میں انعقاد ممنوع قرار دیا جائے اور یہ کہ لوگ اپنے گھروں میں ولیمے کا اہتمام کریں اور ہوٹلوں میں ان کا تکلف نہ کریں کیونکہ ان پُر تکلف ولائم سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔"

اسی طرح وہ میرج ہال جو بھاری قیمت دے کر کرائے پر لیے جاتے ہیں۔اس قرار داد میں خیر خواہی کے جذبے سے یہ سب کچھ بیان ہواکہ لوگوں پر رفق ومہربانی کرنے اور معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے روکا  جانا چاہیے تاکہ متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے شادی کاخرچ آسان ہو اور وہ تکلف سے بچ جائیں،کیونکہ جب ان میں سے کوئی اپنے چچا کے بیٹے یا کسی اور قریبی رشتہ دار کودیکھتاہے کہ اس نے ان ہوٹلوں میں بڑے پر تکلف ولائم کا اہتمام کیا ہے تو وہ بھی ان کی طرح تکلف کرتے ہوئے اپنے اوپر قرضوں اور خرچوں کابوجھ لاد کر ان کی مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرے گا یا اس تکلف سے ڈر کر شادی کو لیٹ کرے گا۔

تو میری تمام مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ وہ ان تقریبات کو ہوٹلوں میں منعقد نہ کریں اور نہ ہی مہنگے میرج ہالوں میں ان کا اہتمام کریں،البتہ کم خرچ والا سستا میرج ہال میسر آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں،مگربہتر یہی ہے کہ وہ میرج ہالوں کی بجائے اپنے یا اپنے کسی رشتہ دار کے گھرمیں اگر ممکن ہوتو ان تقریبات کو منعقد کرلیا کریں۔(ابن باز  رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 364

محدث فتویٰ

تبصرے