السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کوئی شخص کسی لڑکی کو نکاح کی پیش کش کرے اور لڑکی کا ولی اس کو نکاح سے محروم رکھنے کے لیے اس کا نکار کردے اس سلسلہ میں اسلام کیا راہنمائی کرتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولیاء پر واجب یہ ہے کہ جب ان کو ایسے ہمسر نکاح کا پیغام بھیجیں جن کو وہ پسند کرتے ہیں تو ان کو جلدی سے اپنی بچیوں کی ان کے ساتھ شادی کر دینی چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"إذا أتاكم من ترضون دينه وأمانته فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد كبير"[1]
"تمھارے پاس ایسا شخص شادی کے لیے آئے جس کی دین داری اور خوش اخلاقی کو تم پسند کرتے ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ برپا ہو گا اور بڑا فساد کھڑا ہو گا۔"
ان کو ان کے چچا وغیرہ کے بیٹوں جن کو وہ پسند نہیں کرتیں ،سے شادی کرنے کی غرض سے ان کو پسندکی جگہ پر شادی کرنے سے روکنا نہیں چاہیے اور نہ ہی بہت سا مال حاصل کرنے کے لیے اور نہ ہی دیگر اغراض کے لیے ان کو شادی سے روکنا چاہیے جن کواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع نہیں قراردیا ۔
ولاۃ امور مثلاً امراء اور قاضی صاحبان پر واجب ہے کہ وہ ظلم سے روکیں اور انصاف رائج کرنے کے لیے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ان کے اولیاء کے نکاح سے روکنے اور ظلم کرنے کے سبب اللہ کے حرام کردہ کاموں میں واقع ہونے سے بچانے کے لیے قریب سے قریب تر دیگر اولیاء کو مقرر کریں تاکہ وہ ان کی شادی کا اہتمام کر سکیں ۔(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔حسن سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1967)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب