السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کے لیے حق مہر کب واجب ہوگا؟ کا عقد نکاح حق مہر کو واجب کرتا ہے یا دخول حق مہر کو واجب کرنے والا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے مکمل حق مہر خلوت،جماع،موت اور مباشرت سے ثابت ہوجاتا ہے ۔جب انسان کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کے ساتھ خلوت اختیار کرلے تو اگر وہ اس کو طلاق دے گا تو عورت کے لیے پورا حق مہر ثابت ہوجائے گا،اور اگر اس سے نکاح کرکے اس سے مجامعت کرلے تو بھی پورا حق مہر ثابت ہوجائےگا،اور اگر وہ اس سے مباشرت کرلے تو بھی اس کے لیے پوراحق مہر ثابت ہوجائے گا،پس یہ چار امور ہیں جن کے ساتھ حق مہر واجب ہوجاتاہے۔خاوند کی موت،بیوی سے خلوت،اس سے جماع اور اس سے مباشرت کرلینے کے ساتھ۔اس بنا پر اگر کوئی آدمی کسی عورت سے نکاح کرے،پھر اس سے نہ دخول کرے،نہ اس کو دیکھے اور نہ ہی سے اس کلام کرے اور فوت ہوجائے تو ایسی صورت میں عورت پر کیاواجب ہوگا؟
اس پر عدت واجب ہوگی اوراس کے لیے وراثت ثابت ہوگی،اگرخاوند نے اس کامہر مقرر نہ کیا،ہوتو اس کے لیے مہرمثل ثابت ہوگا ،یقیناً بعض لوگ اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ خاوند نے نہ اپنی بیوی کو دیکھا اور نہ اس سے دخول ہی کیا؟
ہم کہتے ہیں ہاں،کیونکہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذينَ يُتَوَفَّونَ مِنكُم وَيَذَرونَ أَزوٰجًا يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَربَعَةَ أَشهُرٍ وَعَشرًا ...﴿٢٣٤﴾...سورة البقرة
"اور جولوگ تم میں سے فوت کیے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ(بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے اور دس راتیں انتظار میں رکھیں۔"
اگر یہ اس کی بیوی ہے اگرچہ اس نے اس سے دخول نہیں کیا۔اور اگر اس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس سے دخول اور خلوت سے پہلے طلاق دے دی تو کیا اس کو پورا حق مہر ملے گا؟اگر حق مہر متعین ہوتو اس کو نصف حق مہر ملے گا،اور اگر حق مہر متعین نہ ہوتو بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملے گا،اور اس پر عدت واجب نہیں ہوگی۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنـٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها ...﴿٤٩﴾... سورةالأحزاب
"اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو،"
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے:
﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ وَقَد فَرَضتُم لَهُنَّ فَريضَةً فَنِصفُ ما فَرَضتُم إِلّا أَن يَعفونَ أَو يَعفُوَا۟ الَّذى بِيَدِهِ عُقدَةُ النِّكاحِ ...﴿٢٣٧﴾... سورةالبقرة
"اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقرره مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وه خود معاف کردیں یا وه شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گره ہے"(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب