سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(389) جس نے بچپن میں حج کیا پھر بلوغت کے بعد دوبارہ حج کرنے سے پہلے اپنے دادے کی طرف سے حج کرنے کا حکم

  • 19237
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 739

سوال

(389) جس نے بچپن میں حج کیا پھر بلوغت کے بعد دوبارہ حج کرنے سے پہلے اپنے دادے کی طرف سے حج کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بچے نے بلوغت سے پہلے اپنی طرف سے حج کیا پھر بلوغت کے بعد اس کے باپ نے اس کو اس کے دادے کی طرف سے حج کرنے کا حکم دیا پس اس نے اپنے دادے کی طرف سے حج تمتع کرنے کے لیے عمرے کا احرام باندھا پھر اس نے (ذوالحجہ کے) آٹھویں دن مسئلہ پوچھا تو اس کو بتایاگیا کہ تیرا پہلا حج نفل تھا اور بلوغت کے بعد تجھ پر حج کرنا واجب ہے لہٰذا یہ حج تیری طرف سے ہوگا(نہ کہ تیرے دادے کی طرف سے) یہ قول کہاں تک درست ہے؟کیا اب اس کا یہ حج تمتع ہوگا یا مفرد کیونکہ اس نے اپنے دادے کی طرف سے عمرہ مکمل کر لیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسے جو بتایا گیا ہے وہ درست ہے کیونکہ شبرمہ کی حدیث سے یہی مقصود ہے جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس کو کہا: ((هل حججت عن نفسك))کیا تونے اپنی طرف سے حج کیا ہواہے؟"اس نے کہا : جی نہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ، ثم حُجَّ عن شُبْرُمَةَ "[1]

"پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے۔"

اور اس شخص کے عمرہ مکمل کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ جز کا حکم وہی ہے جو کل کا حکم ہے اور یہ عمرہ دادے کی طرف سے بدل کر اس کی طرف سے ہو گا یعنی بچے کی طرف سے جو اب بالغ ہو کر اپنے دادے کی طرف سے حج کر رہا ہے۔

نوٹ:

بہت سے لوگ اس حدیث کو انسان کے اپنے دادے کی طرف سے حج کے جواز کی دلیل بناتے ہیں لیکن اس شخص کا قول جس نے شبرمہ کی طرف سے حج کرنے کا ارادہ کیا تھا اس نے کہا: أَخٌ لِي أَوْ قَرِيبٌ لِي (وہ میرا بھائی ہے یا میرا قریبی ہے) یہ عبارت اس کا قول نہیں ہے بلکہ یہ اس کا قول ہونا محال ہے۔

بالفرض میں آپ سے سوال کروں "من هذا"یہ کون ہے؟آپ کہیں  "هذاأَخٌ لِي أَوْ قَرِيبٌ لِي " "یہ میرا بھائی یا میرا قریبی ہے۔"تو آپ نے مجھے گمرا ہ کیا تو کوئی کہنے والا اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کو ایسے کہہ سکتا ہے؟

پس ضروری ہےکہ اس شخص نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو کہا ہو "ابي او اخي او ابن عمي"(میرا باپ یا میرا بھائی یا میرے چچا کا بیٹا ۔الخ) یعنی محدود لفظ بولا جس سے سوال کرنے والے کو دوبارہ سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے۔

لہٰذا اس حدیث کو اپنے کسی قریبی کی طرف سے حج کرنے کے جواز کی دلیل بنانا صحیح نہیں پھر اگر اس آدمی نے کہا:  أَخٌ لِي (وہ( شبرمہ )میرا بھائی ہے) تو کیا یہ بھائی (شبرمہ ) جس کی طرف سے اس کا یہ قریبی حج کر رہا ہے جس طرح آج لوگ بہت سے فوت شدہ مسلمانوں کی طرف سے حج کرتے ہیں۔

تب تو ہم یہی تصور کریں گے کہ یہ شبرمہ ایک مریض تھا اور حج کرنے سے عاجز آگیا تو اس نے اپنے کسی قریبی کو وصیت کی کہ وہ اس کی طرف سے حج کردے۔(علامہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث(1811)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 333

محدث فتویٰ

تبصرے