السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو رات کے وقت ابہا سے مکہ آیا اور صبح کو شیطان نے اس کو وسوسہ ڈالاتو اس نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ آدمی اور اس کی بیوی عمرے کے لیے آئے،رات کو عمرہ کرنے کے بعد انھوں نے صبح روزہ رکھا اور اس دن،جس میں انھوں نے روزہ رکھا مرد نے اپنی بیوی سے مجامعت کرلی،ہم کہتے ہیں:اس پر صرف اسی دن کے روزہ کی قضا دینا واجب ہے،نہ اس پر گناہ ہے اور نہ کفارہ اس پر صرف اس دن کے روزے کی قضا واجب ہے کیونکہ مسافر کے لیے اپنا روزہ توڑنا جائز ہے۔خواہ وہ اپنا روزہ کھانے پینے یا جماع سے توڑے کیونکہ مسافر پر روزہ واجب نہیں ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ ... ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
"تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اورجو بیمار ہویا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔"
لہذا میں اپنے بھائیوں کے لیے یہ پسند کرتا ہوں جو مکہ میں فتویٰ دیتے ہیں کہ جب ان سے کوئی سوال کرنے والاآئے کہ اس نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے تو اس کا کیاحکم ہے؟مناسب یہ ہے کہ ہم اس سے تفصیل پوچھیں اور اس کو کہیں:کیا تو مسافرہے یانہیں؟جب وہ کہے کہ وہ مسافر ہے تو ہم کہیں:تجھ پر صرف قضا واجب ہے لیکن جب وہ اپنے وطن میں رمضان کے دنوں میں اپنی بیوی سے مجامعت کرے اور وہ دونوں روزہ رکھے ہوئے ہوں تو اس پردرج ذیل احکام مرتب ہوتے ہیں:
اولاً:روزے کافاسد ہونا۔
ثانیاً:باقی دن کھانے پینے سے رک جانا۔
ثالثاً: اس دن کی قضا دینا۔
رابعاً:گناہ گار ہونا۔
خامساً:کفارے کا واجب ہونا جو کہ ایک گردن آزاد کرانا ہے۔
لیکن جب وہ گردن آزادانہ کراسکے تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھنا ،اور اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاناہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب