السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ کہتے ہیں حج افراد حج تمتع سے افضل ہے کیونکہ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منفرد حج کیا پس اگر حج تمتع افضل ہوتا تو ان کو بھی معلوم ہوتا تو ہم ان لوگوں کو کیا جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حج افراد جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ اس کا بعض حالات میں فضیلت والا ہوناممکن ہے لیکن ہمارا اس کو اپنا طریقہ بنانا اور اس کو حج قران اور تمتع سے افضل قرار دینا تو اس کی مطلق طور پر کوئی دلیل نہیں ہے اور فی الحقیقت یہ لوگ اپنے مذہب کی تائید میں جھگڑا کرتے ہیں نہ کہ سنت کی مدد کے لیے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا اور لوگوں کے سامنے عام بیان کردیا کہ ان کے قران سے تمتع افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی دلیل کے ساتھ ۔
"لو استقبلت من أمري ما استدبرت لما سقت الهدي ولجعلتها عمرة "[1]
"اگر مجھے اپنے اس امر (تمتع کے قران سے افضل ہونے ) کا پہلے علم ہوتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو میں اپنے ساتھ قربانی نہ لے کر آتا اور میں اس کو عمرہ بناتا۔"
پس جب صحیح سند سے ثابت ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج مفرد کیا ،کیا وجہ ہے کہ انھوں نے اس بات کو نذر انداز کردیا ۔جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھارا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کا حکم دیا ؟نیز وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو بھی بھولتے ہیں۔
"دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة، وشبك بين أصابعه"[2]
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا کہ قیامت تک کے لیے عمرہ حج داخل ہو گیا ہے۔"
اور ہم یہ نہیں کہتے کہ حج مفرد باطل ہے لیکن ہم قطعی طور پر اس کو غیر مشروع قراردیتے ہیں اور اسی لیے ہم ہر حاجی کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ حج تمتع کرے پس اگر وہ کسی دوسری قسم کا حج کرنا چاہتا ہے تو حج قران وہ ہے جو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ مقام سے اپنے ساتھ قربانی لائے تھے اور قربانی لائے بغیر قران کرنا تو یہ وہ چیز ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نصوص کے ذریعہ منع فرمایا ہے ان میں سے واضح نص یہ ہے۔
"دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة، وشبك بين أصابعه"[3]
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا کہ قیامت تک کے لیے عمرہ حج داخل ہو گیا ہے۔"
اس کیے کہ یہ عام حکم ہے اور وہ بات درست نہیں ہے جو بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہے کہ تمتع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اس لیے کہ سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کر کے حلال ہونے کا حکم دیا اور وہ مروہ پر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا:
"لولا أني سقت الهَدي لحللت معكم"[4]اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی تمھارے ساتھ عمرہ کر کے حلال ہو جا تا۔"
تو سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سوال کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہمارا یہ حج تمتع اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بل لأبد الأبد»، ودخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة."[5]
"بلکہ یہ ابدالاباد کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔(علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (6802)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1218)
[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1218)
[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1493)المعجم الکبیر (124/7)
[5] صحیح مسلم رقم الحدیث (1218)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب