سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(332) ایک عورت جس نے ہر سال ماہ رجب کے روزے رکھنے کی نذر مانی،پھر کبر سنی کی وجہ سے عاجز آگئی

  • 19180
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 872

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت نے ہر سال ماہ رجب کے روزے  رکھنے کی نذر مانی،پھر وہ عمر  رسیدہ ہوگئی اور روزے رکھنے سے عاجز آگئی تو اب وہ کیا کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاً:میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نذر سے دور رہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا:

( إنه لا يأتي بخير ، وإنما يستخرج به من البخيل )[1]

"نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی،اس کے ذریعہ صرف بخیل آدمی سے مال نکالا جاتاہے۔"

اور بلاشبہ اللہ عزوجل نے قرآن میں اس کی ممانعت کی طرف اشارہ کیاہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللَّـهُ مَن يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ" (النحل:38)

"وه لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ زنده نہیں کرے گا۔ کیوں نہیں ضرور زنده کرے گا یہ تو اس کا برحق لازمی وعده ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں"

جب صورت حال یہ ہے تو نذر مت مان،پس اگر تو نذر مان لے تواگر وہ اطاعت کرنے کی نذر ہوتو تجھ پر اس کو پورا کرنا واجب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ"[2]

"جس نے اللہ کی اطاعت کرنے کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے۔"

خواہ یہ نذر حصول نعمت کے ساتھ اور تکلیف کے دور ہونے سے مشروط ہو یا مطلق نذر ہو۔

انتباہ:۔

اطاعت کی نذر کبھی تو حصول نعمت یا دفع ضرر کے ساتھ مشروط ہوتی ہے اور کبھی بغیر شرط کے مطلق ہوتی ہے۔

یہ تین حالات ہیں جب کوئی کہنے والا کہے:اللہ کے لیے مجھ پر نذر کہ میں کل روزہ رکھوں گا،یہ اطاعت کی نذر ہے یا نہیں؟ہم کہتے ہیں:اطاعت والی نذر ہے۔مطلق ہے یا مقید؟ہم کہتے ہیں مطلق ہے یعنی اس کا کوئی سبب نہیں ہے۔لیکن جب اس نے کہا:اگر میں امتحان میں کامیاب ہوگیا تو اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ میں تین دن روزے رکھوں گایہ مصلحت وفائدے کے حصول کے ساتھ مقید ہے۔اور جب نذر ماننے والے نے کہا:

اگر اللہ میرے بیمار کو شفا دے گا تو اللہ کے لیے میرے ذمہ نذر ہے کہ میں مہینہ بھر روزے  رکھوں گا۔یہ اطاعت والی نذر ہے جو دفع ضرر کے ساتھ،جو کہ مرض ہے ،مقید ہے۔

اس بناء پر اطاعت والی نذر کو پورا کرنا واجب ہے لیکن ماہ رجب کے روزوں کی نذر ماننا،ہم اس نذر ماننے والی سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے ماہ رجب کے روزوں کو  کیوں خاص کیا ہے؟عبادت کے لیے؟ہم اس کو کہیں گے یہ مکروہ نذر ہے اور اس کو پورا کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ رجب کو روزوں کے ساتھ خاص کرنا مکروہ ہے،یعنی آدمی کے لیے مکروہ ہے کہ وہ سارے سال میں سے رجب کو خاص کرے۔

ایک سوال:۔

اگر کوئی کہنے والا کہے:اللہ کے لیے مجھ پر یہ نذر واجب ہے کہ میں یہ لباس پہنوں گا،کیا اس پر واجب ہے کہ وہ ا پنی نذر پوری کرے یا واجب نہیں ہے؟

جواب:::اس پر اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ مباح نذر کا حکم قسم والاحکم ہے ،پس اب اگر وہ چاہے تو لباس پہن لے،چاہے تو نہ پہنے اور اس پر قسم کاکفارہ دینا واجب ہوگاجو دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ان کو لباس پہنانا یا ایک گردن کاآزاد کرنا ہے،اگر وہ  اس کی طاقت نہ رکھتا ہوتو لگاتار تین دن کے روزے رکھے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ )


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6234) صحیح مسلم رقم الحدیث(1639)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6318)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 291

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ