السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کہتی ہے میں اپنی بلوغت کے آغاز میں تین سال تک رمضان میں اپنے گھر والوں کے سامنے روزہ رکھتی اور چھپ کر افطار کر لیتی ۔شادی کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی واجب میں نے ان مہینوں کے روزوں کی قضا کا ارادہ کیا تو میرے خاوند نے مجھے کہا: توبہ ماقبل کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے اور تو اپنے روزوں کے ساتھ مجھے اور میرے بچوں کو فراموش کرنا چاہتی ہو تو کیا مجھ پر روزے رکھنے لازم ہیں یا میں ایک سواسی مسکینوں کو کھانا کھلا دوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب یہ عورت سرے سے روزہ نہ رکھتی تو اسے قضا کرنا فائدہ نہ دیتا کیونکہ ہمارے ہاں ایک اہم قاعدہ ہے۔
"بلا شبہ جن عبادات کے اوقات مقرر ہیں جب انسان ان کو بلا عذر وقت سے ٹال دے تو وہ عبادات اس سے قبول نہیں کی جاتیں۔"
اور اس قاعدے کی بنیاد پر اگر اس عورت نے سرے سے روزہ نہیں رکھا تو اس پر قضا کرنا لازم نہیں اور اس کا توبہ کرنا ماقبل کی غلطیوں کو مٹا دے گا۔
اور اگر وہ روزہ تو رکھتی تھی لیکن دن کے وقت افطار کر دیتی تھی تو اس کے ذمہ قضا لازم ہے اور اس کے خاوند کو اس سے منع کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ روزوں کی قضا کرنا واجب ہے اور شوہر کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو روزوں کی واجب قضا کرنے سے منع کرے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب