السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک پچاس سالہ عورت جو شوگر کی مریضہ ہے اور روزہ اس کے لیے بہت ہی مشقت کا باعث بنتا ہے لیکن وہ رمضان کے روزے رکھا کرتی تھی اور وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ رمضان میں ایام حیض کے چھُوٹے ہوئے روزوں کی قضا کے لیے بہت سی گنجائش ہے اور اس پر تقریباً دو سو دنوں کے روزے جمع ہو گئے ان ایام کا کیا حکم ہے؟ خاص طور پر اب جبکہ وہ مرض کی حالت میں ہے کیا اللہ اس کے گزشتہ چھوڑے ہوئے روزوں کو معاف کردے گا یا کہ وہ روزے رکھے اور روزے داروں کے روزے کھلوائے ؟ اور کیا روزے داروں کو ہی کھانا کھلانا ضروری ہے یا کسی بھی مسکین کو کھانا کھلاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عورت اگر واقعی اسی حالت میں ہے جو سائل نے بیان کی ہے کہ وہ بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کرتی ہے تو وہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دے پس وہ گزشتہ ایام شمار کرتی رہے اور ان میں سے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلاتی رہے اور اسی طرح موجودہ رمضان کے روزے اگر اس پر گراں گزرتے ہیں اور مانع کے زائل ہونے کی امید نہیں کی جاتی تو وہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب