السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سانس کے مریضوں کے پاس دواہوتی ہے جس کو وہ نسوار کے طور پر ناک کے ذریعہ استعمال کرتے ہیں،کیا اس کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ضیق النفس کی دوائی،جسے مریض ڈراپر کے ذریعہ استعمال کرتاہے،وہ ہوا کی نالی کے راستے پھیپڑوں تک پہنچتی ہے نہ کہ معدہ تک ،لہذا یہ دوائی کھانا پینا کے مشابہ نہیں ہے بلکہ وہ پیشاب کے راستے میں ٹپکائے جانے والے قطرے،سرمہ اور انجکشن وغیرہ کے مشابہ ہے جو دماغ یا بدن میں منہ یا ناک کے علاوہ دوسرے راستے سے پہنچتے ہیں۔
ان اشیاء کے استعمال کے متعلق علماء کااختلاف ہے کہ یہ روزہ دار کے روزے کو توڑتی ہیں یا نہیں؟بعض علماء نے ان چیزوں کے استعمال کو مفطر قرار نہیں دیاہے اور بعض علماء نے ان میں سے بعض چیزوں کو مفطر اور بعض کو مفطر نہیں کہاہے،لیکن سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی چیز کے استعمال کو کھانا پینا نہیں کہاجائے گا۔لیکن جنھوں نے ان کے کلی یا جزئی استعمال کو مفطر کہاہے انھوں نے ان کو کھانے پینے کا حکم میں شامل کیاہے اور اس کی جامع علت یہ بیان کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک چیز انسان کے اختیار سے اس کے پیٹ تک پہنچتی ہے ،اور ان کی دوسری دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
"وَبَالِغْ فِي الْمَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا "[1]
"اور پانی دماغ تک لے جانے میں مبالغہ کر مگر جب تو روزے سے ہو۔"
پس اس مبالغہ کرنے سے روزے دار کو مستثنیٰ کیا گیا تاکہ کہیں پانی اس کے حلق یا معدے میں پہنچ کر اس کے روزے کو فاسد نہ کردے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو چیز بھی روزے دار کے اختیار سے معدے میں پہنچ جائے وہ روزے کو توڑ دیتی ہے۔
اورجن علماء نے ان اشیاء کے استعمال سے روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا،جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہمنوا،انھوں نے ان چیزوں کو کھانے پینے پر قیاس کرنے کو درست قرار نہیں دیا ہے کیونکہ ادلہ شرعیہ میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو یہ تقاضا کرتی ہو کہ ہر وہ چیز جو دماغ یا بدن تک پہنچ جائے یا جسم کے کسی بھی راستے سے پیٹ میں پہنچ جائے وہ مفطر ہے۔اور جب ان اوصاف میں سے کسی وصف کا افطار صائم کے حکم کی علت ہونا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے کہ شرعاً اس علت پر حکم کو معلق کیا جائے اور اس کو حلق یا معدہ تک پہنچنے والی اشیاء کے مشابہ قرار دے کر روزے کے فاسد ہونے کا حکم لگایا جائے تو یہ قیاس کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟چاہے وہ اشیاء منہ کے راستے سے داخل ہوں یا ناک کے راستہ سے کیونکہ یہ دونوں محض راستے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ صرف کلی اور بلا مبالغہ استنثاق سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔اور نہ ہی شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔اور منہ کا ایک راستہ ہونا تو یہ ایک علت طروی ہے جس کاکوئی اثر نہیں ہے۔اسی لیے جب پانی یا اس جیسی کوئی اور چیز ناک کے راستے سے داخل ہوتو اس کا حکم منہ کے راستے سے داخل ہونے والی چیز کا ہوگا،پھر بعض اوقات ناک کے راستے کو غذا داخل کرنےکے لیے بھی استعمال کیا جاتاہے ،لہذا منہ اور ناک دونوں برابر ہوئے۔
لہذا جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ناک کے راستے سے استعمال کی جانے والی دوائی سے روزہ نہیں ٹوٹتا،جیسے کہ پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ کسی لحاظ سے بھی کھانے پینے کے حکم میں داخل نہیں ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔صحیح سن ابی داود رقم الحدیث(142)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب