السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض عورتیں سونا پہننے میں اسراف کا مظاہرہ کرتی ہیں جبکہ اس کا پہننا حلال ہے تو سونے میں زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سونا اور چاندی مردوں کے علاوہ عورتوں کے لیے حلال کیے گئے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَعَنْ أَبِي مُوسَى - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((أُحِلَّ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ لِإِنَاثِ أُمَّتِي, وَحُرِّمَ عَلَى ذُكُورِهِمْ))" [1]
"سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال کیے گئے ہیں اور اس کے مردوں پر حرام ہیں۔(اس کو احمد،نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے صحیح کہا ہے)
علماء نے اس کی زکوۃ میں اختلاف کیا ہے کہ کیا زیورات میں زکوۃ واجب ہے کہ نہیں؟ بعض علماء ان میں زکوۃ کے قائل ہیں جبکہ ان زیورات میں زکوۃ واجب نہیں کہتے جن کو عورت پہنتی ہے اور عاریتاً لیتی ہے اور کچھ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ ان میں بھی واجب ہے اور یہی درست بات ہے یعنی عمومی دلائل کی وجہ سے ان میں زکوۃ واجب ہے جب وہ نصاب زکوۃ کو پہنچ جائیں اور ان پر ایک سال گزر جائے۔
سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اور چاندی کا ایک سو چالیس مثقال جب سونے کے زیورات خواہ وہ ہار ہوں یا کنگن وغیرہ بیس مثقال ہوں تو ان میں زکوۃ واجب ہو گی۔اور بیس مثقال ساڑھے گیارہ سعودی جنیہ کے برابر ہے اور گراموں میں اس کی مقدار بانوے گرام ہےجب سونے کے زیورات اس مقدار کو پہنچ جائیں تو ان میں زکوۃ واجب ہو گی۔ اور زکوۃ ہر سال ربع عشر یعنی ایک ہزار سے پچیس ہے۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ۔ "أتعطين زكاة هذا؟ "کیا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو؟" اس عورت نے جواب دیا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟ " [2]
"کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں قیامت کے دن ان کے عوض آگ کے کنگن پہنائے؟"
راوی حدیث عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس عورت نے وہ کنگن اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے کہا : یہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں۔
(اس کو ابو داؤد اور نسائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔)
اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سونے کے کچھ زیورات پہنا کرتی تھی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق پوچھا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ "کنز"ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ "[3]
"جو زکوۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی زکوۃ ادا کی جائے تو وہ "کنز"نہیں ہے(اس کو ابوداؤد دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے)
ابو داؤد نے صحیح سند کے ساتھ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت بیان کی ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے ہاتھ میں چاندی کے کڑے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ما هذا يا عائشة)) "اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا !یہ کیا ہے؟"میں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے آپ جناب کی خاطر زینت کرنے کے لیے یہ بنائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أتؤدين زكاتهن ؟ "کیا تو ان کی زکوۃ ادا کرتی ہے؟"میں نے کہا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "هو حسبك من النار"[4]"تجھے جہنم کی آگ کے لیے یہی کافی ہے۔"(اس کو حاکم نے صحیح کہا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کو" بلوغ المرام" میں بیان کیا ہے)
اور "ورق " کا معنی چاندی ہوتا ہے بہر حال مذکورہ بیان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ زیورات جن کی زکوۃ ادا نہیں کی جاتی وہ "کنز"ہے جس کی وجہ سے صاحب کنز کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔العیاذ باللہ (سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن النسائی رقم الھدیث (5148)
[2] ۔حسن سنن ابی داؤد رقم الحدیث(1563)
[3] ۔حسن سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1564)
[4] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث (1565)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب