سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(452) لڑکی کا مہر باپ لے سکتا ہے...؟

  • 1910
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1423

سوال

(452) لڑکی کا مہر باپ لے سکتا ہے...؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں نورستان میں کچھ دنوں قبل لڑکیوں کو مہر کے بارہ میں کوئی خبر نہ تھی کہ ہمارا حق ہے جو ہمیں ملنا چاہیے اب ان کو سوجھ بوجھ ہو گئی کہ ہمارا حق ہے اور ہمیں ملنا چاہیے تو کچھ علماء نے فتویٰ دے دیا ہے کہ لڑکی کا مہر باپ لے سکتا ہے دلیل یہ پیش کرتے ہیں ۔حدیث :

«عن عائشة رضی اﷲ عنها قَالَتْ قَالَ رَسُوْل اﷲﷺإِنَّ اَطْيَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَاِنَّ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ»رواه الخمسة-مشكوة-كتاب البيوع باب الكسب وطلب الحلال-الفصل الثانى

’’رسول اللہﷺنے فرمایا کہ سب سے پاکیزہ وہ ہے جو تم اپنی کمائی سے کھاؤ اور بے شک تمہاری اولاد تمہاری کمائی سے ہے‘‘

«وَفِیْ لَفْظٍ وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ اَطْيَبِ کَسْبِه فَکُلُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ هَنِيْئًا»رواه احمد ص41 ج6

’’اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کی اولاد اس کی پاک کمائی سے ہے تو تم ان کے مالوں سے چین سے کھاؤ‘‘

«وَحَدِيْثُ جَابِرٍ  رضي الله عنه اَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِيْکَ »رواه ابن ماجه و ابوداؤد مشكوة-كتاب النكاح باب النفقات وحق المملوك الفصل الثانى

’’اور جابر رضي الله عنه کی حدیث ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے ہے‘‘ ان حدیثوں کی روشنی میں کہتے ہیں کہ لڑکی کا باپ مہر کا حق دار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ میراث والی آیات کو بھی پیش نظر رکھیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کے مال میں والدین کا حصہ ہے اوروالدین کے مال میں اولاد کا حصہ ہے نیز ثابت ہوتا ہے کہ اولاد اپنے مال کی خود آپ مالک ہے یوں نہیں کہ اولاد کے مال کا  مالک ان کا والد ہو ورنہ لازم آئے گا کہ والد  اپنی اولاد کے مال کا ان کی وفات کے بعد وارث نہ بنے اور والد کے علاوہ مثلاً اولاد کی بیوی یا خاوند یا اولاد کی اولاد کو کچھ نہ ملے کیونکہ اس صورت میں والد کو اولاد کے مال کا مالک فرض کر لیا گیا ہے تو اس صورت مفروضہ میں اولاد کے مال کی حیثیت والد کی بنسبت بالکل وہی ہو گی جو عبد مملوک کے مال کی حیثیت اس کے مالک کی بنسبت ہوتی ہے اور ضروریات دین سے معلوم ہے کہ والد اور اولاد کا باہمی تعلق بسلسلہ ملک مال اور مالک اور عبدمملوک کا باہمی تعلق بسلسلہ ملک مال دونوں جدا جدا ہیں۔

پھر آیت:

﴿وَءَاتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحۡلَةٗۚ فَإِن طِبۡنَ لَكُمۡ عَن شَيۡءٖ مِّنۡهُ نَفۡسٗا فَكُلُوهُ هَنِيٓ‍ٔٗا مَّرِيٓ‍ٔٗا﴾--النساء4

’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے ڈالو اور اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو چین سے اس کو کھاؤ۔‘‘  میں ایک تفسیر کے مطابق خطاب اولیاء کو ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا ولی عورت کے مہر کو عورت کی رضا کے بغیر نہیں کھا سکتا ۔ تو سب دلائل کے پیش نظر اولیاء کو چاہیے کہ وہ اپنی مولیات کے مہر ان کی رضا کے بغیر خواہ مخواہ ہڑپ نہ کریں اور مولیات کو چاہیے کہ وہ اپنے اولیاء کے حق کو ملحوظ رکھیں انہیں بوقت ضرورت اپنے مہر سے کچھ برضاء ورغبت دے دیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نکاح کے مسائل ج1ص 319

محدث فتویٰ

تبصرے