السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میں اپنے خاوند کی نماز میں امامت کراسکتی ہوں؟درآں حال یہ کہ میں تعلیم وفقہ میں اس پر فوقیت رکھتی ہوں کیونکہ میں"کلیہ شریعہ"کی معلمہ ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے مرد کی امامت کرانا جائز نہیں ہے،خواہ مرد اس کا شوہر،بیٹا یا اس کا باپ ہو،اس لیے کہ عورت کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ مردوں کی امام بنے۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً"[1]
"وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنی باگ ڈور عورت کے سپرد کردی۔"
حتیٰ کہ اگرعورت مرد کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ہو،پھر بھی وہ اس کی امامت نہیں کراسکتی،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاکرتے تھے:
"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ"[2]
"لوگوں کی امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو۔"
لیکن عورت اس خطاب میں مرد کے ساتھ شامل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ عَسىٰ أَن يَكونوا خَيرًا مِنهُم وَلا نِساءٌ مِن نِساءٍ عَسىٰ أَن يَكُنَّ خَيرًا مِنهُنَّ ... ﴿١١﴾... سورةالحجرات
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے،ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے،ہوسکتا ہے کہ وہ ا ن سے بہتر ہوں۔"
اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا،یعنی مرد اور عورتیں ،اس بنا پرعورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان:
"يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ"
میں شامل نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4163)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(673)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب