سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206) رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا حکم

  • 19053
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 582

سوال

(206) رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنن ابی داود میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں جس میں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا:

"كبر رسول الله صلي الله عليه وسلم  ثم قرا ثم كبر للركوع ثم قال:"سمع الله لمن حمده"حتي رجع كل عظم الي موضعه"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ  اکبر کہا پھرقراءت کی ۔پھر رکوع جاتے ہوئے اللہ اکبر کہا،پھر کہا: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئے۔"

كيا ہم اس حدیث کو ہاتھوں کو اسی حالت پر لے جانے پر محمول کرسکتے ہیں جس طرح کہ وہ رکوع سے پہلے تھے ،یعنی دائیاں ہاتھ بائیں پر؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث معروف شرعی کیفیت پر بدن کو لانے پر دلالت کرتی ہے،پس ہر عضوکا استقرار اپنی اصل وضع،یعنی ان کو نیچے لٹکانا ہی مناسب ہے۔

فائدہ: ہر وہ نص جو بہت سے اجزاء کو متضمن ہوتو اس عام نص کے کسی ایک جز پر عمل کرنا سلف سے ثابت نہیں ہے،پس اس ایک جز پر عمل کرنا غیر مشروع ہوگا۔

اس اہم قاعدے سے غفلت کرنا ہی مسلمانوں میں بہت سی بدعات پھیلانے کا پہلا سبب ہے،پس اگر ہم ان بدعات  پر غور کریں تو ہمیں سنت سے ہی نہیں بلکہ قرآن کریم سے بھی ان بدعات کے تمام دلائل مل جائیں گے۔

مثال:اذان کے شروع میں(درود) اضافہ یا آیات کے ساتھ نصیحت کرنا اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنا۔ہمیں تو اس بات  میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا کرنا بدعت ہے لیکن ایسا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعہ ہماری بات کو رد کرتے ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورةالاحزاب

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو خواب سلام بھیجنا۔"

پس اس عام نص سے یہ استدلال کیا گیا کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنے کو کسی وقت یا جگہ کے ساتھ محدود تو نہیں کیا گیا۔

اسی لیے امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:بدعت دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

1۔بدعت حقیقیہ:۔

یہ وہ بدعت ہے جس کی مطلق طور پر نہ کتاب اللہ میں کوئی اصل اور بنیاد ہے اور نہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔

2۔بدعت اضافیہ:وہ ہے کہ جب آپ اس کی طرف ایک زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو آپ کو اس کی اصل اور ثبوت مل جائےگا اور جب آپ اس کو دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو آپ کو اس کی کوئی اصل اور دلیل نہیں ملے گی۔

مثال:نمازوں کے بعد استغفار کرنا سنت ہے لیکن نماز کے بعد اجتماعی طور پر استغفار کرنا اس کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ یہ بدعت ہے۔

ایک اور مثال:یہ بھی پہلی مثال کی طرح ہے۔سنت نماز میں ایک مشروع عمل ہے لیکن اگر کوئی شخص سنت نماز کی جماعت کا قائل ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان سے دلیل:

«يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ».[1]

"اللہ کا ہاتھ جماعت پرہے"

یا اس حدیث کو دلیل بنائے:

"صلاة الاثنين افضل من صلاة العرء وحده وصلاة الثلاثة ازكي عندالله من صلاة الاثنين"

"دو آدمیوں کا مل کر نماز پڑھنا اس کے اکیلا نماز پڑھنے سے افضل ہے اورتین آدمیوں کی نماز اللہ کے ہاں دو آدمیوں کی نماز سے افضل وپاکیزہ ہے۔"

تو یہ عمومی دلائل ہیں۔جب کسی شخص کے دل میں نص عام کے ساتھ کسی معین عمل پر استدلال کرنے کا خیال گزرے تو سنت سے بدعت کی طرف انحراف سے بچنے کے لیے ہم پر واجب ہے کہ ہم دیکھیں کیا سلف نے ایسا کیا ہے یا نہیں؟

اصل سوال کی طرف رجوع :اس سلسلہ میں کچھ احادیث ہیں جن کے عموم سے بعض علماء رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے مسئلہ پر استدلال کرتے ہیں لیکن سلف نے اس مسئلہ میں عموم سے استدلال نہیں کیا ہے،چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور ائمہ کرام  رحمۃ اللہ علیہ  میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے مستحب یاسنت ہونے کا قائل ہوجس طرح کہ اہل سنت رکوع سے پہلے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔(علامہ ناصر  الدین البانی  رحمۃ اللہ علیہ )


[1] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث(4020)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 199

محدث فتویٰ

تبصرے