سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) درمیانے تشہد میں درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم

  • 19033
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1283

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا درمیانہ تشہد درود ابراہیمی کے بغیر ہو گا یا وہ آخری تشہد کی طرح درودابراہیمی کے ساتھ ہو گا؟ امید ہے کہ آپ اس مسئلہ پر مختلف دلائل ذکر فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور تو اس طرف گئے ہیں کہ نماز کے درمیانی جلسہ (درمیانہ تشہد ) میں صرف تشہد پڑھنا ہی کفایت کر جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود صرف آخری تشہد میں پڑھا جائے گا ایک حدیث کعب بن عجرہ کے واسطے سے بخاری ومسلم میں موجود ہے کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام کیسے بھیجنا ہے؟ سو یہ بتائیے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود کیسے پڑھا جائے؟تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"قولوا:اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" [1]

"کہو:اے اللہ !محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور ان کی آل پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم  علیہ السلام  پر درود بھیجا یقیناً تو تعریف کیا ہوا بزرگ ہے اے اللہ !محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کی آل پر برکت نازل کر جس طرح تونے ابراہیم  علیہ السلام   پر اور آل ابراہیم علیہ السلام   پر برکت نازل کی بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا بزرگ ہے۔"

اسی طرح ابو مسعودبدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں ہے جس کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت کیا ہے کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے بشیر بن سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرض کی:اے اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  !اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنے کا حکم دیا سو بتائیے کہ ہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر کیسے درود پڑھیں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خاموشی اختیار کی حتی کہ ہم نے یہ پسند کیا

کہ کاش ہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ سوال نہ پوچھتے ۔پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"قولوا:اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" [2]

"کہو:اے اللہ !محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اور ان کی آل پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم  علیہ السلام  پر درود بھیجا ،محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کی آل پر برکت نازل کر جس طرح تونے جہانوں میں آل ابراہیم  علیہ السلام   پر برکت نازل کی بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا بزرگ ہے۔"

اسی طرح کے الفاظ بخاری و مسلم میں ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے بھی مروی ہیں۔

ثابت یہ ہوا کہ یہ احادیث جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں درمیانے اور آخری تشہد میں فرق نہیں کرتی ہیں اسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  درمیانے اور آخری دونوں تشہدوں میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنے کی مشروعیت کے قائل ہیں اور ابو بن حزم رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی یہی مذہب ہے اور جمہور نے ایک ایسی حدیث سے دلیل پکڑی ہےجس حدیث میں ان کے موقف کی دلیل فی الحقیقت ہے ہی نہیں کیونکہ وہ سند کے اعتبار سے ضعیف روایت ہے اور متن کے اعتبار سے اس کا مفہوم بھی ضعیف ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ بلا شبہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  جب درمیانے تشہد میں بیٹھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی گرم پتھر پر بیٹھے ہیں گویا کہ صحابی یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  درمیانے تشہد میں تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے تھے ۔

یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اور اس حدیث سے جو معنی لیا گیا ہے اس کے متعلق اہل علم نے کہا ہے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ یقیناً آدمی جب آخری تشہد پڑھتا ہے پھر وہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اسی طرح درود پڑھتا ہے جیسا کہ درمیانے تشہد میں پڑھا تھا پھر وہ اس پر دعا کا اضافہ کرتا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے موجود ہے کہ بلا شبہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الآخِرِ ] فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَعٍ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ." ((صحيح مسلم ))588 [3]

"جب تم میں سے کوئی شخص آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ جہنم سے عذاب قبر سے مسیح دجال کے فتنہ سے اور زندگی و موت کے فتنہ سے۔"

بلکہ بعض اہل علم تو اس تعوذ کے وجوب کے قائل ہیں اور ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی یہی مذہب ہے طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے بیٹے کو نماز کا اعادہ کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس نے مذکورہ چار چیزوں سے پناہ طلب نہیں کی تھی صحیح موقف جمہورعلماء کا موقف  ہے کہ درمیانے تشہد میں درود پڑھنا مستحب ہے اس لیے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسیئی الصلوۃ کو درود پڑھنے کا حکم نہیں دیا تھا اور اس حدیث پر نماز کے متعلقہ ارکان اور واجبات کے ثبوت پر اعتماد کیا جاتا ہے اور اسی طرح صحیح مسلم میں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ بلاشبہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تشہد کے بعد اور سلام سے قبل پڑھا ۔

"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَما أَخَّرْتُ، وَما أَسْرَرْتُ وَما أَعْلَنْتُ، وَما أَسْرَفْتُ، وَما أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ."[4]

"اے اللہ !مجھے معاف کردےوہ جو میں نے پہلے کیا اور جو بعد میں کیا اور جو میں نے مخفی کیا اور جو اعلانیہ کیا اور جس کو تو مجھ سے زیادہ جا نتا ہے توہی مقدم ہے اور تو ہی مؤخر ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔"

اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں تشہد کے بیان میں ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو کہا :

"ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فليدع به ربه عز وجل"[5]

"پھر تم میں سے کوئی اپنی پسند یدہ دعا چن لے اور اس کے ساتھ اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرے۔"

ثابت یہ ہوا کہ خاص طور پر آخری تشہد کے بعد دعا کرنا مشروع اور مسنون ہے پس اگر آدمی اس سلسلہ میں وارد ہونے والے اذکار بھی پڑھے،مثلاً وہ ذکر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں وارد ہوا ہے اور وہ ذکر جو علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے ثابت ہے تو یہ دو ذکر تشہد اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنے کے برابر ہیں۔

ثابت ہوا کہ آخری تشہد درمیانے تشہد میں بیٹھنے کی مدت کی نسبت دو گنا ہے کیا ایسا ہی نہیں ہے !بہر حال یہ حدیث ضعیف ہے(فضیلۃ الشیخ محمد بن عبد المقصود)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (3190)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (405)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(855)

[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6035)صحیح مسلم رقم الحدیث (2719)

[5] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(800)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 184

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ