السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جمعہ کے دن غسل کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں دو طرح کی احادیث ہیں:پہلی وہ جوجمعہ کے دن کے غسل کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور دوسری وہ احادیث جو اس غسل کی فضیلت پر دلالت کرتی اور وجوب کی نفی ظاہر کرتی ہیں۔
غسل جمعہ کے وجوب پر دلالت کرنے والی بہت سی صحیح احادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"غُسْلُ يَوْمِ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ"[1]
"جمعہ کے دن کا غسل ہربالغ پر واجب ہے۔"
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ "[2]
"جو جمعہ میں حاضر ہونے کاارادہ کرے وہ غسل کرے۔"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا"[3]
"ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ ہفتہ وار غسل کرے۔"
مذکورہ بالا یہ احادیث تو غسل جمعہ کے وجوب کو بتلاتی ہیں لیکن وہ احادیث جو غسل جمعہ کے افضل اور بہتر ہونے پر دلالت کرتی ہیں ،ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
وہ مشہور حدیث جو سنن اور مسانید میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ"[4]
"جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے پوچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل اور بہتر ہے۔"
لہذا علماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ(فَالغُسُل أَفْضَلُ) سے یہ استدلال کیا ہے کہ بلاشبہ غسل جمعہ واجب نہیں ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث غسل جمعہ کے عدم وجوب پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ جمعہ کے دن کے غسل کا افضل ہونا مطلق غسل پر صادق آتا ہے،خواہ وہ مستحب ہو،سنت موکدہ ہو یا واجب اور ضروری ہو۔یہ تمام غسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے تحت آجاتے ہیں:
"وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ"
"اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے،"بلکہ جب ہم کہیں:غسل جمعہ واجب ہے تو یہ افضلیت اس میں زیادہ موکد اور محقق ہوگی بہ نسبت اس کے کہ وہ کہیں کہ یہ مستحب ہے۔
اور اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ غسل جمعہ کی افضلیت والی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جمعہ کے تاکیدی حکم سے پہلے کی ہے اور اس غسل جمعہ کو بتدریج واجب قر اردینا اسی طرح ہے جیسا کہ بعض احکام شرعیہ کو بتدریج مشروع قرار دینے میں ملاحظہ کیا گیاہے۔
اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مادی وسائل کی کمی کے اعتبار سے بہت مشکل حالات میں زندگی بسر کررہے تھے۔پانی،جو ان کی صفائی ستھرائی میں معاون تھا،اس کی بہت کمی تھی اور اُن کو ان حالات میں فوراً غسل جمعہ کے وجوب کا حکم دینا ان کے حق میں بلاشبہ مشکل حکم ہوتا۔
اس کی تائید عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی بعض احادیث میں آنے والے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
"أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم دخل المسجد يوم الجمعة فوجد منهم رائحة الثياب التي تعرقت فقيل لهم: "لو اغتسلتم يوم الجمعة؟" [5]
"بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں تشریف لائے تو ان کے پسینے سے شرابور کپڑوں سے بدمحسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوحکم دیا:"اگر تم جمعہ کے دن غسل لیا کرو(تو بہتر ہے)۔"
تو یہ غسل جمعہ کو واجب قرار دینے کی تمہیدی ابتداتھی،پھر اس کے بعد کی وہ احادیث ہیں جو ہم نے ابھی ذکر کی ہیں جن میں غسل جمعہ کے واجب ہونے کا حکم دیا گیا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان احادیث کا یہی مفہوم سمجھاہے۔وہ ایک جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ایک روایت کے مطابق وہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دینا روک دیا تاکہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دیر سے آنے کا سبب دریافت کریں تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیاکہ میں نے تو بس اذان سنتے ہی وضو کیا اور چلا آیا،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:"اچھا تو تو نے صرف وضو پر ہی اکتفا کیا جبکہ تُو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
" مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ "[6]
"جو جمعہ میں حاضر ہونے کاارادہ کرے وہ غسل کرے۔"
تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لوگوں کی موجودگی میں عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترک غسل والے عمل کا انکار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے سمجھنا مشکل ہے کہ غسل جمعہ محض فضیلت والے اعمال میں سے ہے اور اس کوچھوڑنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے گی۔
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ میں یہ دلیل ہر گز نہیں ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن اس سے پہلے غسل نہیں کیا تھا اور یہ بھی صحیح ہے لیکن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے جو بات سمجھی،جب عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
"ماكان الا ان سمعت الاذان وتوضات"[7]
"میں نے اذان سنتے ہی وضو کیا۔"
وہ یہی ہے کہ یقیناً عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن غسل نہیں کیا تھا لیکن کیا اس واقعہ میں دو فریقوں میں سے ایک فریق کی دلیل نہیں؟دو فریقوں سے مراد وہ جو غسل جمعہ کے وجوب کے قائل ہیں اور جو اس کے وجوب کے قائل نہیں بلکہ اس کی افضلیت کے قائل ہیں،کیوں نہیں! اس واقعہ میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے جو بات فوراً سمجھی اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترک غسل والے عمل کا انکار کیا،یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ غسل جمعہ واجب ہے۔ اور اس بات سے بھی خبردار رہنا چاہیے کہ غسل جمعہ نماز جمعہ کی صحت کی شرطوں میں سے کوئی شرط نہیں ہے بلکہ وہ تو جمعہ کے لیے آنے والے شخص کے آداب میں سے صرف ایک واجب ادب ہے۔
پیچھے بیان کردہ تین احادیث جن سے غسل جمعہ کا وجوب سمجھ میں آتاہے ،یہ وہ احادیث ہیں جن کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے جبکہ وہ حدیث جس سے غسل جمعہ کی افضلیت مفہوم ہوتی ہے اور عدم وجوب مفہوم ہوتاہے ہم اس کی ایک بھی صحیح سند پانے میں کامیاب نہیں ہوئے،بس اتنی بات ہے کہ ہم نے اس حدیث کو ضعیف کے درجے سے اٹھا کر صحت کے درجے میں پہنچانے کے لیے تعدد طرق کاسہارا لیا ہے۔
ہمیشہ زائد چیز کو لے لیا جائے گا احکام شریعت میں زائد بات حجت وقاعدہ ہے مثال کے طور پر جب کوئی دلیل کسی کام کے جواز پر دلالت کرتی ہو۔ پھر ایک اور دلیل مل جائے جو اس کام کے مستحب اور افضل ہونے پر دلالت کرےتو ہم پہلی دلیل میں موجود جواز پر ہی کار بند نہیں رہیں گے بلکہ ہم اس کے جواز کے ساتھ دوسری دلیل کی وجہ سے استحباب کو بھی ملالیں گے کیونکہ کسی چیز کا مستحب ہونا اس کے جواز کے منافی تو نہیں ہے۔
ایک اور مثال :جب ایک حدیث کسی چیز کو مباح اور جائز قراردیتی ہو اور ایک دوسری حدیث اس چیز کو حرام بتلاتی ہو اور ہم کو دونوں حدیثوں میں سے کسی کے مؤخر ہونے کی تاریخ کا بھی علم نہیں تو اس کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ جب منع کرنے والی اور اجازت دینے والی دو دلیلوں کا آپس میں تعارض ہو جائے تو روکنے اور منع کرنے والی دلیل کو جائز کرنے والی دلیل پر مقدم کیا جائے گا۔
ایک ضعیف سند والی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إن الله تعالى فرض فرائض فلا تضيعوها، وحد حدودًا فلا تعتدوها، وحرم أشياء فلا تنتهكوها، وسكت عن أشياء - رحمةً لكم غير نسيانٍ - فلا تبحثوا عنها"[8]
"یقیناًاللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں فرض قراردی ہیں ان کو بجالاؤضائع نہیں کرو۔ اور بہت سی حدیں مقرر کی ہیں ان سے آگے نہیں بڑھو۔ اور کئی چیزوں سے تم پر شفقت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہے ان کے متعلق کریدنہیں کرو۔"
تو اسلام کے ابتدائی ایام میں جن احکام پر خاموشی اختیار کی گئی تو ان پر خاموشی ہی رہی اور ان میں اباحت اور جواز موجود رہا ۔جیسے کہ شراب ہے اور جب ان چیزوں کو حرام کرنے والے احکام نازل ہوئے تو علماء نے ان کو بنیاد بنا لیا۔
جب ہم اس قاعدہ کو غسل جمعہ والے مسئلہ پر لاگو کرتے ہیں تو درج ذیل صورت حال سامنے آتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے ۔
"لو أنكم اغتسلتم""اگر تم غسل کرو(تویہ بہترین ہے)"
اس حدیث سے غسل جمعہ پر ابھاراگیا ہے جبکہ اس سے پہلے جمعہ کے دن کا غسل ایک عام غسل تھا جو آدمی اپنی صفائی ستھرائی کے لیے کرتا ہے۔ ایسے ہی یہ حدیث ہے۔
"وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ"
"اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل و بہترین ہے۔"
تو اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن صرف وضو پر اکتفا کرنے سے غسل کرنا افضل ہے پھر اس کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں غسل جمعہ کے وجوب کا حکم ہے جیسے کہ یہ الفاظ فَلْيَغْتَسِلْ وہ غسل کرے۔(حق)(غسل جمعہ)حق ہے"واجب(غسل جمعہ) واجب ہے"ظاہر کرتے ہیں کہ غسل جمعہ کے وجوب پر دلالت کرنے والے یہ الفاظ غسل جمعہ کو مستحب اور افضل قراردینے والے حدیث کے الفاظ پر زائد حکم ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا "شرح النخبۃ"نامی ایک معروف رسالہ ہے جس میں وہ یوں رقمطرازہیں۔
جب مقبول کی دوقسموں :حسن اور صحیح میں سے کوئی دوحدیثیں باہم متعارض ہوں تو اس تعارض کو دور کرنے کے لیے ہم درج ذیل طریق کار کو اختیار کریں گے۔
اولاً:ہم تطبیق کے قاعدوں میں سے کسی قاعدے کی مدد سے ان دو متعارض حدیثوں میں تطبیق اور موافقت پیدا کریں گے اور باہم متعارض احادیث میں تطبیق دینے کے قاعدے ایک سوسے متجاوز ہیں۔
ثانیاً:جب ان دو متعارض حدیثوں میں تطبیق کے قاعدوں میں سے کسی قاعدے کے ذریعہ تطبیق ممکن نظر نہ آئے تو ہم ناسخ اور منسوخ کی طرف رجوع کریں گے۔پہلے کی حدیث کو منسوخ اور بعدوالی کو ناسخ قراردیں گے۔
ثالثاً:جب تلاش کرنے والے ناسخ و منسوخ کا بھی علم نہ ہوسکے تو ان کے ثبوت کے اعتبار سے کسی ایک کو دوسری پر ترجیح دی جائے گی مثلاًان دو متعارض حدیثوں میں سے ایک حسن اور دوسری صحیح ہو۔ان میں تطبیق ممکن نہیں ہوئی اور نہ ہی ناسخ و منسوخ کا پتا چل سکا تو اس وقت صحیح حدیث کوحسن حدیث پر ترجیح دے دی جائے گی۔ اسی طرح جب ان میں سے ایک حدیث صحیح غریب ہو اور دوسری صحیح مستفیض یا مشہور ہو تو صحیح مستفیض یا مشہورحدیث کو صحیح غریب حدیث پر ترجیح دی جائے گی۔
رابعاً:اور جب وہ دونوں حدیثیں صحت ثبوت میں برابر ہوں اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو ان دونوں پر فی الوقت عمل کرنا موقوف قرار دیا جائے گا۔ نیز یہ بھی کہا گیاہے۔
﴿فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٤٣﴾... سورةالنحل
"اگر تمھیں علم نہیں تو اہل علم سے سوال کرلو۔(فضیلۃالشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(820) صحیح مسلم رقم الحدیث(846)
[2] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث(492)
[3] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(856)
[4] ۔حسن سنن ابی داود رقم الحدیث(354) سنن الترمذی رقم الحدیث(497)
[5] ۔دیکھیں صحیح البخاری رقم الحدیث(861)صحیح مسلم رقم الحدیث(847)
[6] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث(492)
[7] ۔شرح معانی الآثار(117/1)
[8] ۔ضعیف سنن الدارقطنی(183/4)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب