السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت سوال کرتی ہے کہ جب میرا خاوند مجھ سے بوس وکنار کرتے ہوئے مجھ سے مباشرت کرتا ہے تو کسی قدر جلدی سے میری منی خارج ہونے لگتی ہے اور میں ہر روز یا ایک دن میں کئی مرتبہ غسل کرنے میں تکلیف محسوس کرتی ہوں۔مجھے اس کا کوئی حل درکار ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں کہتا ہوں:اگر یہ منی ٹپک کر جھٹکے سے نکلتی ہے،یعنی جنابت کے ساتھ تو اس مذکورہ عورت کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔اور یہ مشہور ہے کہ بلاشبہ عورت کا پانی یا عورت کی منی،جیسا کہ بعض اہل علم اس کو یہ نام دیتے ہیں،وہی ہے جو شہوت کے وقت ٹپک کر جھٹکے سے نکلتی ہے جس کے بعد جسم سست پڑجاتاہے،اور عورت کی بھی منی ہوتی ہے جیسے مرد کی ۔بخاری ومسلم میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واسطے سے یہ حدیث موجود ہے:
"عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الحَقِّ، فَهَلْ عَلَى المَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَتِ المَاءَ» فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ، تَعْنِي وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَتَحْتَلِمُ المَرْأَةُ؟ قَالَ: «نَعَمْ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا"[1]
"بلاشبہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یقیناً اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے نہیں شرماتے(تو ہمیں پوچھنے سے نہیں شرمانا چاہیے) تو کیا عورت پر احتلام ہونے کی صورت میں غسل کرنا واجب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہاں،جب وہ(کپڑے وغیرہ پر) منی دیکھے،"ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا:(یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں(اگراس کی منی ہی خارج نہ ہوتو) اس کا بچہ اس کے ساتھ مشابہ کیسے ہوسکتا ہے!"
ثابت یہ ہوا کہ عورت کا بھی پانی ہے جو وہ مرد کی طرف ٹپکاتی ہے۔اگر یہ نکلنے والا پانی اچھل کر نکلتا ہے تو یہ عورت جنبی ہوگی اور اس پر غسل کرنا واجب ہوگا،اور اگر وہ منی اچھل کر نہیں نکلتی تو وہ مذی ہے تو اس عورت کو مذی نکلنے پر وضو کرنا لازم ہے،جیسے کہ ترمذی میں سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے۔فرماتے ہیں:
"كُنْتُ أَلْقَى مِنْ الْمَذْيِ شِدَّةً وَعَنَاءً فَكُنْتُ أُكْثِرُ مِنْهُ الْغُسْلَ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ ، فَقَالَ : ( إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ ) فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْهُ ؟ قَالَ : ( يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَتَنْضَحَ بِهِ ثَوْبَكَ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ مِنْهُ"[2]
"میں مذی کی وجہ سے بڑی مشقت کا سامنا کرتا تھا، وہ اس طرح کہ میں مذی کے خروج کی وجہ سے غسل کیا کرتا،میں نے اس بات کا تذکرہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مذی نکلنے سے تجھے صرف وضوکرنا ہی کافی ہے،"تو میں نے پھر سوال کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے کپڑوں پر جو مذی لگ جاتی ہے اس کا کیا کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تیرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ تو پانی کا ایک چلو لے اور کپڑے کے جس حصے پر مذی لگی ہواس پر بہادے۔"
سنن ترمذی ہی کی ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
"أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَتَنْضَحَ بِهِ"[3]
"کہ تو پانی کا ایک چلو لے کر کپڑے پر چھینٹے مارلے۔"
لیکن جب مذی جسم کو لگ جائے تو جسم کے اس حصے کو دھونا ضروری ہوگا کیونکہ بخاری ومسلم میں مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث موجود ہے جو وہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
"عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال : كنت رجلا مذاءً ، فاستحييت أن أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم لمكان ابنته مِنِّي ، فأمرت المقداد بن الأسود فسأله ، فقال : يغسل ذكره ويتوضأ" .[4]
"مجھ کو بہت زیادہ مذی آتی تھی تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں تھی اس لیے میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھنے میں شرم محسوس کی لہذا میں نے مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس مذی کے خروج پر وضو کرنا لازم ہے۔"
مسند احمد اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"يغسل ذكره ويتوضأ "[5]
"وہ اپنے آلہ تناسل کو دھوئے اور وضو کرے۔"
نیز مسند احمد اور ابو داود کی ایک حدیث میں ہے:
"يَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَأُنْثَيَيْهِ وَيَتَوَضَّأُ "[6]
"وہ آلہ تناسل اور خصیتین کو دھوئے اورپھر وضو کرے۔"
خصیتین کو دھونے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے منی کا خروج منقطع ہوجاتاہے کیونکہ وہ کافی دیر تک نکلتی رہتی ہے۔
بہرحال اگر تیری منی بغیر شہوت کے اچھلے بغیر نکلتی ہے تو یہ منی نہیں مذی ہے اس سے تو صرف وضو کرکے پاکی حاصل کر،یعنی اپنی کپڑوں پر چھینٹے مار اور جسم کے جس حصے کو مذی لگی ہو اس کو دھولے۔رہی وہ رطوبتیں جو عورت سے عادتاً خارج ہوتی رہتی ہیں تو اہل علم کے دو قولوں میں سے ایک قول کے مطابق یہ رطوبتیں نجس نہیں ہیں بلکہ وہ پاک ہیں،اسی موقف کو ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے ترجیح دی ہےاور ابو محمد ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
یہ بات تو معلوم ومشہور ہے کہ تمام عورتوں کی اس طر ح کی رطوبتیں خارج ہوتی رہتی ہیں پس یہ مسئلہ"عموم بلوی" کی قبیل سے ہوا،یعنی جس میں عام عورتیں ملوث ہیں،تو ثابت یہ ہوا کہ اگر یہ رطوبتیں نجس ہوتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ضرور بیان فرماتے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ رطوبتیں پیشاب وپاخانہ کے دو راستوں میں سے ایک راستے سے نکلنے والی ہیں لہذا یہ نجس ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رطوبتیں سبیلین کی بجائے ایک تیسرے راستے سے نکلتی ہیں اور وہ جماع کاراستہ ہے،جیساکہ پیچھے بیان ہوچکاہے۔نیزاس بنیاد پر مناسب یہ ہے کہ یہ رطوبتیں ناقض وضو نہ ہوں کیونکہ جن کاموں کے کرنے سے وضو ٹوٹتا ہے وہ اس آیت میں بیان ہوئے ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلـٰكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٦﴾... سورةالمائدة
"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منھ کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو، اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو، ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا اراده تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے، تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو "
جو یہ کام کرے گا وہ باوضو ہوگا،سو جو شخص کسی چیز کے ساتھ اس باوضو آدمی کے وضو کے ٹوٹنے کادعویٰ کرے گا اسے اس دعویٰ کی دلیل پیش کرنا ہوگی جس میں اس بات کی صراحت ہو کہ مذکورہ چیز ناقض وضو ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن عبدالمقصود رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(130) صحیح مسلم رقم الحدیث(313)
[2] ۔حسن سنن ابی داود رقم الحدیث(210) سنن الترمذی رقم الحدیث(115)
[3] ۔حسن سنن الترمذی رقم الحدیث(115)
[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(132) صحیح مسلم رقم الحدیث(303)
[5] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(303)مسند احمد(80/1)
[6] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(208)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب