سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم

  • 18885
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 905

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اونٹ کا گوشت کھانےسےوضو کرنے والی حدیث منسوخ ہے یانہیں؟اور اگر وہ منسوخ نہیں تو کیا اس کے کھانے سے وجو کرنا چاہیے؟اگر وہ حدیث منسوخ ہے تو اس کی ناسخ حدیث کو نسی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اونٹوں کے گوشت کھانے پر وضو کرنے کے حکم والی دو حدیثیں صحیح ہیں:

1۔پہلی حدیث جس کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان کیا ہے اور وہ مسند احمد میں جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے واسطے سے مروی ہے:

"عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (( أَأَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ قَالَ إِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّأْ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا تَوَضَّأْ قَالَ أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ قَالَ نَعَمْ فَتَوَضَّأْ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ قَالَ أُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَالَ نَعَمْ قَالَ أُصَلِّي فِي مَبَارِكِ الْإِبِلِ قال لا "))[1]

"بلا شبہ ایک آدمی نے سوال کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم بھیڑ بکریوں کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"چاہو تو وضو کرلو اگر چاہو تو نہ کرو۔"اس آدمی نے پھر پوچھا:کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"ہاں،اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرو۔"اس نے پوچھا:کیا ہم بکریوں کے باڑے میں نماز  پڑھ لیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"ہاں"،اس نے پوچھا:کیا ہم اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"نہیں۔"

2۔دوسری حدیث وہ ہے جس کو احمد اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور جن محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے ان میں سے ایک حافظ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  بھی ہیں۔راوی نے کہا:

"سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ فَقَالَ تَوَضَّئُوا مِنْهَا وَسُئِلَ عَنْ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ فَقَالَ لَا تَتَوَضَّئُوا مِنْهَا"

" سئل رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏عن الصلاة في مبارك الإبل فقال ‏ ‏لا تصلوا في مبارك الإبل فإنها من الشياطين وسئل عن الصلاة في ‏ ‏مرابض ‏ ‏الغنم فقال صلوا فيها فإنها بركة"[2]

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کے متعلق دریافت کیا گیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اس سے وضو کرو"،اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بکریوں کا گوشت کھاکر وضو کرنے کے بارے میں پوچھا گیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اس سے وضو نہ کرو"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"ان میں نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیاطین کی جگہ ہے،"پھر بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:"ان میں نماز پڑھو کیونکہ وہ برکت کی جگہ ہے۔"

امام احمد،اسحاق بن راہویہ،اہل ظاہر اور شوافع کا ایک طبقہ جیسے ابن منذر،ابن خزیمہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف ان دو  حدیثوں کے مطابق ہے۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:اگر اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے والی حدیث صحیح ہے تو میں اسی کا قائل ہوں۔امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ میں نے جواب دیا:اس کے متعلق(ایک نہیں) دو صحیح حدیثیں موجود ہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اورجمہور رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف یہ ہے کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا منسوخ ہے،ناسخ اس کی وہی حدیث ہے جس نے آگ کی پکی ہوئی چیز کھا کر وضو کرنے کا منسوخ کیا ہے۔

صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ،زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تین صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے حدیث مروی ہے کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"توضوا مما مست النار"[3]

اصحاب سنن نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت بیان کی ہے ،فرماتے ہیں:

"كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مسّت النار "[4]

"آگ کی پکی ہوئی چیز کھا کر وضو ترک کردینا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دونوں معاملات میں سے  آخری تھا۔"

نسخ کے قائل ائمہ کرام نے کہا ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے ترک وضو والی مذکورہ حدیث سے ثابت ہوا کہ اس سے اونٹ کا گوشت کھاکر وضو کرنا بھی منسوخ ہے،لیکن پہلے گروہ نے کہا:بلکہ یقیناً وہی بات درست ہے جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہی ہے کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو واجب ہونا راجح موقف ہے تو جن لوگوں نے اونٹ کے گوشت سے وضو کو واجب قرار دیا انھوں نے کہا:بلاشبہ آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کا حکم عام ہے جبکہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کا حکم خاص ہے اور حکم عام کی مطلق طور پر حکم خاص پر بنیاد رکھی جاتی ہے۔لیکن بعض اہل علم کا یہ کہناہے کہ یہ مطلق نہیں ہے،بعد والا عام حکم پہلے والے خاص حکم کا ناسخ بن سکتا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف ہے۔

حتیٰ کہ اس مذہب کے مطابق ،جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی کہا،اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنا  واجب ہے کیونکہ اگر آپ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے  کی ناسخ حدیث اسی حدیث کو قرار دیں گے جو آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنے کی ناسخ ہے تو بکریوں کے گوشت سے وضوکرنے کا حکم دلالت کرتا ہے کہ یہ بکریوں کا گوشت کھاکر وضو کرنے والی حدیث آگ کی پکی ہوئی  چیز سے وضو کرنے کے منسوخ ہونے کے بعد کی ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا دو ایسی چیزوں میں  فرق کرنا جو  آگ سے پکی ہوئی ہیں،یعنی بکری کا گوشت اور اونٹ کاگوشت،واضح کرتاہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کے حکم کا تعلق آگ سے نہ پکے ہوئے ہونے کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے کا حکم خود اونٹ کے گوشت کے سبب سے ہے،جیسا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ،جو براء کی حدیث میں مروی ہے،دلالت کرتا ہے:

"فإنها من الشياطين "بلاشبہ وہ شیاطین سے ہے۔"

جہاں تک اونٹ کے پیشاب کا تعلق ہے سو وہ پاک ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ،جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں مروی ہے،اس وقت فرمایا جب قبیلہ عکل یا عرینہ کی ایک جماعت مدینہ طیبہ میں آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو صدقہ کے اونٹ عطاکیے اور فرمایا:

"ان کو لے جاؤ اور ان کےدودھ اور پیشاب ملا کر پیو۔"[5]

درآں حالیکہ وہ گنوار وجاہل قسم کے بدو تھے جو احکام شریعت کو نہیں جانتے تھے۔اگراونٹ کا پیشاب نجس ہوتا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو (مجبوراً) اونٹ کا پیشاب پینے کے بعد کم از کم کلی کرنے کا حکم تو دیتے(جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کوئی حکم صادر نہیں فرمایا جس سے ثابت ہوتا ہے  کہ اونٹ کا پیشاب پاک ہے،مترجم)امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  بھی اونٹ کے پیشاب کی طہارت کے قائل ہیں۔


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(360)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(360)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (352)

[4] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(192)

[5] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(231) صحیح مسلم رقم الحدیث(1671)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 82

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ