السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورتوں کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتاہے کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورتوں کو چھونے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق فقہاء کے تین اقوال ہیں۔
دو انتہائی اور ایک معتدل ۔ان اقوال میں سے ضعیف قول یہ ہے کہ عورتوں کو چھونا وضو کو توڑدیتاہے۔جب وہ چھونا شہوت کے بغیر ہو،البتہ جس کو چھوا گیا ہے وہاں پر شہوت کا خدشہ موجود ہو،یہ قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ ... ﴿٤٣﴾... سورةالنساء
اور ایک دوسری قراءت میں یہ الفاظ ہیں: "أو مسستم"
دوسرا قول یہ ہے کہ بے شک عورتوں کو چھونا کسی حال میں بھی ناقض وضو نہیں ہے اگرچہ وہ چھونا شہوت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو،یہ قول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کاہے۔
اگرچہ یہ دونوں قول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہیں لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب امام مالک اور فقہاء سبعہ کے مذہب کے مطابق ہے ،وہ یہ کہ بلاشبہ عورت کو چھونا اگر شہوت کے ساتھ ہوتو یہ ناقض وضو ہے اور اگر چھونا شہوت کے بغیر ہو تو ناقض وضو نہیں ہے،اس مسئلہ میں یہ قول اور اس سے پہلے والا قول ہی قابل التفات ہے۔
وضو توڑنے کو عورتوں کو صرف چھونے سے معلق کرنا نہ صرف اصول کے خلاف ہے بلکہ یہ اجماع صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اورآثارصحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بھی خلاف ہے۔جو اس کا قائل ہے اس کے پاس بطور دلیل نہ کوئی نص ہے نہ قیاس۔اگراللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" (النساء:43)میں ہاتھ سے چھونا اور بوسہ وغیرہ لے لینا مراد لیا جائے۔جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کا بھی قول ہے تو یہ موقف درست نہیں ہے۔کیونکہ قرآن وسنت میں جہاں بھی اس طرح کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں وہاں ان سے مراد شہوت کے ساتھ چھونا،یعنی جماع ہی مراد ہوتاہے،جیسا کہ آیت ا عتکاف میں ہے:
﴿ وَلا تُبـٰشِروهُنَّ وَأَنتُم عـٰكِفونَ فِى المَسـٰجِدِ ...﴿١٨٧﴾... سورةالبقرة
"اور مسجد میں اعتکاف کرنے کے دوران عورتوں سے مباشرت نہ کرو۔"
اعتکاف کرنے والے کے لیے بغیر شہوت سے عورت کے ساتھ مباشرت تو کرنا حرام نہیں ہے،حرام وہ مباشرت ہے جو شہوت کے ساتھ ہو۔اسی طرح محرم آدمی ،جس کی پابندی اعتکاف سے سخت ہے،بغیر شہوت کے عورت سے مباشرت کرے تو یہ اس کے لیے حرام ہے اور نہ ہی اس پر اسکے جرمانے کے طور پر قربانی لازم آتی ہے۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
﴿ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ...﴿٤٩﴾... سورة الاحزاب
"پھر تم ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔"
اور یہ فرمان:
﴿لا جُناحَ عَلَيكُم إِن طَلَّقتُمُ النِّساءَ ما لَم تَمَسّوهُنَّ...﴿٢٣٦﴾... سورةالبقرة
"تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو،جب تک تم نے انھیں ہاتھ نہ لگایا ہو۔"
ان آیات میں عورت کو چھونے سے اگر شہوت کے بغیر چھونا مراد لیا جائے تو اس سے عورت پر نہ عدت ہے،نہ مہر لازم آتاہے اور نہ ہی سسرالی رشتہ داروں کی حرمت ثابت ہوتی ہے،اس پر علماء کا اتفاق ہے۔برخلاف اس کے کہ اگر اس نے عورت کوشہوت سے چھوا،البتہ وطی ودخول نہیں کیا تو اب حق مہر لازم ہونے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے مذہب میں علماء کے درمیان مشہور اختلاف ہے۔
جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ" (النساء:43) میں چھونے سے مراد ایسا چھونا بھی ہے جو شہوت کے بغیر ہوتو وہ قرآن کی لغت سے دور چلا گیا بلکہ اس نے عرف عام کی لغت کو بھی ترک کردیا،حالانکہ وہ چھونا جو میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اس سے مراد شہوت کے ساتھ چھونا ہی ہوتا ہے،جیسا کہ جب میاں بیوی کے درمیان وطی کا ذکر ہوتو اس سے مراد فرج(عورت کی اگلی شرمگاہ) میں وطی کرنا ہی ہوتا ہے نہ کہ عورت کی دبر(پچھلی شرمگاہ) میں۔نیز وہ یہ نہیں کہتا کہ بلاشبہ یہ حکم مطلق عورتوں کی اس قسم کے ساتھ خاص ہے جس سے شہوت پوری کی جاسکتی ہو۔رہی وہ عورتیں جو شہوت کا محل نہیں ہیں،جیسے وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے اور چھوٹی بچی تو ان کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔یہاں آکر اس شخص نے آیت کے ظاہری الفاظ کا سہارا لے کر مطلق چھونے سے وضو ٹوٹنے کا دعویٰ ترک کردیا۔اور ایسی شرط عائد کردی جس کی اس کے پاس نص اور قیاس کی صورت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔جبکہ منصوص دلائل شہوت کے ساتھ عورت کو چھونے اور بغیر شہوت کے ساتھ چھونے میں تو فرق کرتے ہیں مگر شہوت کی جگہ میں چھونے اور غیر شہوت کی جگہ میں چھونے کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے،اور یہ چھونا تمام عبادات میں موثر ہے،مثلاً احرام،اعتکاف اور روزہ وغیرہ۔اور جب یہ قول ایسا ہے کہ جس پر نہ ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں اور نہ ہی قیاس تو ثابت ہوا کہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور دلیل نہیں ہے۔
اور جس نے وضو کے ٹوٹنے کو ایسے چھونے سے معلق کیا جو شہوت کے ساتھ ہوتو اس کی دلیل وہ ظاہری مفہوم ہے جو اس طرح کے الفاظ کے متعلق مشہور ہوتا ہے،اور شریعت کے اصول ودلائل پر قیاس کرنا اس کی دوسری دلیل ہے۔اور جس کسی نے چھونے کو کسی حالت میں بھی ناقض وضو قرار نہیں دیا تو وہ اس لیے کہ اس کے نزدیک چھونے سے مراد جماع ہے،جیسا کہ اس فرمان باری تعالیٰ میں ہے:
﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ...﴿٢٣٧﴾... سورةالبقرة
"اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ۔"
یہاں چھونے سے مراد جماع ہے۔ اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیات موجود ہیں۔احادیث میں سے اس کی دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے:
"أن النبي صلى الله عليه وسلم قبَّل بعض نسائه ، ثم خرج إلى الصلاة ولم يتوضأ"[1]
"بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو بوسہ دیا پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھی۔"
مگر اس کی صحت پر کلام ہے۔نیز اس قول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ تو معلوم ہے کہ لوگوں کا اپنی عورتوں کو چھونے والا معاملہ وہ ہے جس میں عموماً لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔اپنی امت کے لیے ضرور اس کی وضاحت فرماتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے درمیان اس کا بیان مشہور ہوتا،جبکہ کسی ایک صحابی سے بھی یہ مروی نہیں ہے کہ کوئی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی یا کسی اور عورت کو صرف ہاتھ لگ جانے سے وضو کرتا ہو اور نہ ہی اس مسئلہ میں کسی صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کی ہے۔لہذا معلوم ہوا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹنے والا مسئلہ باطل ہے۔واللہ اعلم(شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔سنن دارقطنی(136/1)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب