سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) حائضہ عورت کا درس سننے کے لیے مسجد میں جانا اور نفاس کی انتہائی مدت کا بیان

  • 18874
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 783

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بچے کی شرمگاہ کو چھونا وضو کو توڑدیتا ہے؟کیا حائضہ عورت کے لیے درس سننے کی غرض سے مسجد میں داخل ہونا جائز ہے؟نیز خون نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت کتنی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسرہ بنت صفوان  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت کردہ وہ حدیث جس کو امام احمد اوراصحاب سنن نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلَا يُصَلِّي حَتَّى يَتَوَضَّأَ " .[1]

"جس شخص نے اپنے عضو مخصوص کو چھوا اب وہ تجدید وضو کیے بغیر نماز نہ پڑھے ۔"

اس بات کی دلیل ہے کہ آلہ تناسل کو چھونا وضو کو توڑدیتا ہے۔تب تو عورت کے لیے بھی مسنون یہی ہے کہ جب وہ اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو وضو کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ابن ماجہ میں اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی صحیح سند کے ساتھ حدیث موجود ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ مَسَّ فَرْجَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ"

"جو اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ وضو کرے۔"

لغت میں"فرج"کالفظ اگلی اور پچھلی دونوں شرمگاہوں کو شامل ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی مذکورہ حدیث مردوں اور عورتوں کو شامل ہے البتہ مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  میں حسن سند کے ساتھ ایک حدیث ہے جس کو عمروبن شعیب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے باپ شعیب اور شعیب نے اپنے داداعبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" أَيُّمَا رَجُلٍ مَسَّ فَرْجَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مَسَّتْ فَرْجَهَا فَلْتَتَوَضَّأْ " [2]

"جونسا مرد اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ وضو کرے اور جونسی عورت اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ وضو کرے۔"

تو یہ حدیث مردوں اور عورتوں کی اگلی اور پچھلی شرمگاہ دونوں کو شامل ہے نیز اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے مسلک کی دلیل بنایا ہے کہ بلاشبہ جب آدمی اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو اس پر واجب ہو جا تا ہے کہ وہ ان تمام کاموں کے لیے وضو کرے جن کاموں کے لیے وضو کرنا شرط ہے مثلاً :نماز پڑھنا بیت اللہ کا طواف کرنا اور مصحف قرآنی کو چھونا۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف یہ ہے کہ مذکورہ تمام احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے یعنی شرمگاہ کو چھونے سے وضو کرنا فرض اور واجب نہیں صرف مستحب ہے کیونکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور اصحاب سنن رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث روایت کی ہے جو کہ طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ انھوں نےنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا۔

"ہم میں سے کوئی شخص جب اپنے عضو مخصوص کو چھوئے تو کیا وہ دوبارہ وضو کرے؟

تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إنما هو بضعة منك"[3]

"وہ (آلہ تناسل) تو صرف تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔"

اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔

"وهل هو إلا بضعة منك".[4]

"وہ تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے۔"

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آلہ تناسل تیرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ طبعاً پہلے بیان کردہ احادیث بظاہر طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی اس حدیث سے متعارض ہیں اور یہ اصولی بات ہے کہ جب دو دلیلوں کا بظاہر ایک دوسری کے ساتھ تعارض ہو جائے تو سب سے پہلے یہ کوشش کی جائے گی کہ دونوں متعارض دلائل کے درمیان اس طرح تطبیق دی جائے کہ دونوں پر عمل ممکن ہو جائےاور اگر ہم ان کے درمیان ایسے تطبیق پیدا نہ کر پائیں تو پھر نسخ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جب تاریخ معلوم ہو جائے گی تو ناسخ و منسوخ کے ذریعے دونوں میں تطبیق ممکن ہوگی ۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان

"وهل هو إلا بضعة منك""اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آلہ تناسل کو چھونے کی وجہ سے وضو کرنے کا حکم مستحب ہے اور اس شخص کے لیے جس نے بغیر پردے کے اپنی شرمگاہ کو چھواوضو کیے بغیر نماز پڑھنے کے لیے جو ممانعت وارد ہوئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے سو اس طرح سے مذکورہ تمام دلائل کے درمیان تطبیق پیدا ہو جاتی ہے اور میرے نزدیک بھی یہی راجح موقف ہے لیکن اس مسئلہ میں بہت سی تفصیلات ہیں۔

بعض اہل علم علماء تو (طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کے ٹوٹنے والی حدیث کے) منسوخ ہونے کے قائل ہیں جیسے کہ ابن القیم لیکن انھوں نے اس حدیث کو منسوخ قراردینے کے لیے ایسا مسلک اختیار کیا ہے جس کے ساتھ اصولی لوگ نسخ کو ثابت نہیں کرتے۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پہلے اسلام قبول کیا جبکہ بسرہ بنت صفوان  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے بعد میں اسلام قبول کیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے جو حدیث بیان کی ہے وہ طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے بعد کی ہے؟ہر گز نہیں کیونکہ یہ مرسل صحابی بھی ہو سکتی ہے اور یہ کہ طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق ہمیں کون بتائے گا کہ انھوں نے یہ روایت کب بیان کی ہے بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی روایت سے پہلے یا بعد میں؟بہر حال تطبیق ممکن ہوتے ہوئے نسخ اور ترجیح والا موقف قابل التفات نہیں ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اس طرف گئے ہیں کہ بلا شبہ جب آدمی اپنے آلہ تناسل کو چھوئے تو وہ وضو کرے کیونکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں جو بسرہ بنت صفوان  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث ہے وہ انھی الفاظ سے مروی ہے اور وہ حدیث جس میں مطلق طور پر آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرنے کا حکم ہے تو ان آئمہ نے فرمایا کہ اس حدیث کے الفاظ آدمی کے اپنے آلہ تناسل کو چھونے اور دوسرے کے آلہ تناسل کو چھونے دونوں کو شامل ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں یہ کہا جا تا ہے کہ بلا شبہ بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث ایک ہی ہے جو دو لفظوں سے وارد ہوئی ہے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ "یعنی مقید ہے کہ جس نے اپنے آلہ تناسل کو چھوا اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ (من مس ذكره فليتوضأ) [5] 

یعنی آدمی مطلق آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرے لیکن مناسب یہ ہے کہ مطلق روایت کو مقید پر محمول کیا جائے کیونکہ حدیث ایک ہے اور دو الفاظ سے مروی ہے ایک میں اطلاق ہے اور دوسری میں تقیید لہٰذا مناسب یہی ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے بنابریں وہ عورت جو اپنے بچے کی صفائی ستھرائی کرتی ہے اور اس کی شرمگاہ کو چھوتی ہے وہ دوبارہ وضونہیں کرے گی اور آدمی بھی اگر اپنے بچے کی شرمگاہ کو چھولیتا ہے تو وہ بھی وضو نہیں دوہرائے گا۔میں قائل اس بات کاہوں لیکن عملاً میں بذات خود اس سے وضو کرتا ہوں لیکن آلہ تناسل کو چھونے پر وضو کیے بغیر نماز پڑھنے سے جونہی ہے وہ جونہی تنزیہی ہے اور آلہ تناسل کو چھونے سے وضو کرنے کا حکم مستحب ہے اور احتیاط کی بنیاد پر ہے ۔

جہاں تک خون نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعلق ہے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: بلاشبہ خون نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ مدت ساٹھ دن قراردی ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے ایک روایت بیان کی ہے ۔کہتی ہیں۔

"عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ كَانَتِ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعِينَ يَوْمًا فَكُنَّا نَطْلِي وُجُوهَنَا بِالْوَرْسِ مِنَ الْكَلَفِ "[6]

"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں ہم (نفاس کی وجہ سے) چالیس دن بیٹھی رہتی تھیں ۔نماز نہیں پڑھتی تھیں اور ہم اپنے چہروں پر چھائیوں کی وجہ سے ورس بوٹی کا لیپ کرتی تھیں ۔"

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح لغیرہ ہے اور یہ حدیث صحیح ہے اس لیے کہ اس کی صحت کے شواہد موجود ہیں۔لہٰذا اس حدیث کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورت کے نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے اور اگر خون چالیس دن سے تجاوز کر جائے تو وہ چالیس دن مکمل کرنے کے بعد غسل کرے گی اور پھر ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرے گیاور چالیس دن سے زیادہ آنے والے خون کو استحاضہ شمار کرے گی۔پھر اگر وہ چالیس دن سے پہلے پاک ہو گئی اس نے غسل کیا اور نماز پڑھنا شروع کردی مثلاً اگر وہ چالیس دن سے پہلے بیس دن کے بعد پاک ہوگئی اور اس نے غسل کر کے نماز پڑھنا شروع کردی مگر پانچ دن ہی گزرے تھے کہ دوبارہ خون آنے لگا اگر اس نے غسل کیا اور نماز پڑھی اور رمضان کے روزے رکھے اور پچیس دن کے بعد دوبارہ خون جاری ہوگیا تو اس بیس اور پچیس دنوں کے درمیان جو خون رکا ہے اس کو نفاس کا وقفہ تصور کیا جائے گا اور اس وقفے میں پڑھی ہوئی نمازیں اور رکھے ہوئے روزے کالعدم ہوں گے البتہ وہ روزوں کی قضا دے گی لیکن نماز کی قضا نہیں دے گی۔ (فضیلۃ الشیخ محمد بن عبدالمقصود  رحمۃ اللہ علیہ )


[1] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث (82)

[2] ۔حسن مسند احمد (223/2)

[3] ۔حسن مسند احمد (22/4)

[4] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث (165)

[5] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث (164)

[6] ۔حسن صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث (139)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 71

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ