السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مرد کا عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنا صحیح قول کے مطابق کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں(علماء کا) اختلاف مشہور ہے۔اور جمہور علماء کامذہب ،جس کی تائید امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دو قولوں میں سے ایک قول میں فرمائی،یہ ہے کہ عورت،خواہ تنہا پانی استعمال کرے یامرد کے ساتھ مل کر اور خواہ اس نے طہارت حدث سے حاصل کی یا پلیدی وناپاکی لگنے سے،جمیع حالات میں مرد عورت کے باقی ماندہ پانی سے طہارت حاصل کرسکتا ہے۔اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا۔اور بلاشبہ یہ حدیث منع کی حدیث کہ" مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل نہ کرے۔"سے زیادہ صحیح ہے اور بہت سے اہل علم منع والی حدیث کی صحت کے قائل بھی نہیں ہیں،لہذا ایسی روایت کو حجت بنانا صحیح نہیں ہے۔اور پھر جمہور کے اس قول کی تائید ان عمومی دلائل سے بھی ہوتی ہے جو بلا قید پانی سے طہارت حاصل کرنے کے سلسلہ میں وارد ہیں۔تو ہر وہ پانی جس کو نجاست نے تبدیل نہ کیا ہو وہ عام پانی کے حکم میں داخل ہے۔نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا ...﴿٤٣﴾... سورة النساء
"جب تمھیں پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔"
اس آیت میں پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں تیمم کو مباح قرار دیا گیا ہے اور یہ عورت کا بچا ہوا پانی بہرحال پانی ہے اور شارع کسی چیز سے بغیر سبب کے منع نہیں فرماتے۔اور یہ پانی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"(إِنَّ اَلْمَاءَ لَا يُجْنِبُ")"[1]پانی پلید نہیں ہوتا"اس کی طہارت پر دلالت کرتاہے۔اگر مرد کے لیے عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنا ناجائز ہوتاتوصحیح احادیث ضرور واردہوتیں جو اس کے منع پر دلالت کرتیں،کیونکہ لوگ عام طور پراس میں مبتلا ہوتے تھے اور پھر اس میں مرد کے لیے مشقت بھی ہے۔لہذا ثابت ہواکہ یہی جواز والا قول صحیح ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول،جو متاخرین کے ہاں زیادہ مشہور ہے،یہ ہے کہ مرد عورت کے تنہا حدث سے پاکی حاصل کرنے کے بعد بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل نہیں کرسکتا جبکہ وہ روایت جس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے اس مسئلہ کی دلیل بننے کے لائق نہیں ہے،اس لیے کہ وہ ضعیف ہے اور صحیح دلائل کی مخالف ہے نیز ان کے پاس اس قید کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ مرد صرف اس پانی سے طہارت حاصل نہیں کرسکتا جو عورت کے حدث سے پاکی حاصل کرنے کے بعد بچ گیا ہو۔(علامہ عبدالرحمان السعدی رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(68)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب