سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1240) حضرت عباس﷜ کی زیارت کی نذر

  • 18847
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1026

سوال

(1240) حضرت عباس﷜ کی زیارت کی نذر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت نے نذر مانی کہ اگر اللہ اسے بیٹا عنایت فرمائے تو وہ ہر سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کیا کرے گی اور پھر فی الواقع اس کے ہاں بیٹے نے جنم لیا۔ تو کیا اسے اپنی یہ نذر پوری کرنی چاہئے، یا اس پر اس بارے میں کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ نذر پوری کرنی جائز نہیں ہے کیونکہ عورت کے حق میں یہ معصیت ہے۔ عورت کے لیے قبور کی زیارت حرام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:

(لَعَنَ اللهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ) وفى لفظ۔ لَعَنَ اللَّهُ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذَاتِ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ ، وَالسُّرُجَ ) ۔ (سنن الترمذي،کتاب الجنائز،باب کراھیة زیارة القبور للنساء،حدیث:1056۔سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاءفي النھي عن زیارة النساءالقبور،حدیث:1576۔مسند احمد بن حنبل:337/2،حدیث:8430۔) وفى لفظ۔ لعن الله زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج ) (صحیح بخاري،کتاب الایمان والنذور،باب النذر فی الطاعة،حدیث:6696۔سنن ابي داؤد،کتاب الایمان والنذور،باب ماجاءفی النذر فی المعصیة،حدیث:3289،وسنن الترمذي،کتاب النذور والایمان،باب من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ،حدیث:1526۔سنن النسائي،کتاب الایمان والنذور،باب النذر فی الطاعة،حدیث:3806۔)

’’اللہ کی لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو قبروں کی (بہت زیادہ) زیارت کو جاتی ہیں۔ اور ان کے لیے بھی جو انہیں سجدہ گاہیں بناتے ہیں اور ان پر چراغ جلاتے ہیں۔‘‘

قبروں کی زیارت صرف مردوں کے لیے مشروع ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ تو عورت نے اگر قبروں کی زیارت یا کسی خاص قبر کی زیارت کی نذر مانی ہو تو اسے یہ پوری کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معصیت کا کام ہے اور حدیث میں ہے کہ: ’’جس نے کسی معصیت کی نذر مانی ہو، اسے وہ معصیت کا کام نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ (سنن الترمذي،کتاب الجنائز،باب الرخصة فی زیارۃ القبور،حدیث:1054وسنن النسائي،کتاب الضحایا،باب الاذن في ذلک،حدیث:4429۔ومسند احمد بن حنبل:355/5،حدیث:23055۔)

علاوہ ازیں اولیاء و صحابہ کی قبروں کی زیارت جیسے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی قبر وغیرہ ہے، اس میں عام طور پر شرک ہوتا ہے۔ صاحب قبر سے لوگ ستغاثہ وغیرہ کرتے ہیں، مدد مانگتے ہیں، تبرک کی نیت رکھتے ہیں۔ تو یہ زیارت شرکیہ ہے۔

جبکہ شرعی اور مسنون زیارت یہ ہے کہ مسلمان اموات کے لیے دعا کی جائے، قبروں کو دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے اور آخرت یاد آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے موت یاد آتی ہے۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب الجنائز،باب في زیارۃالنساءالقبور،حدیث:3236۔سنن الترمذي،کتاب الصلاة،باب ماجاءفی کراھیۃ،ان یتخذ علی القبر مسجدا،حدیث:320۔سنن النسائي،کتاب الجنائز،باب التغلیظ فی اتخاذالسرج علی القبور،حدیث:2043۔سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاءفی النھي عن زیارۃ النساءالقبور،حدیث:1575۔بلفظ لعن رسول اللہ....."قال الشیخ الالبانی:ضعیف۔معجم ابن الاعرابی(618)۔المعجم الکبیر للطبرانی:148/12،حدیث:12725بھذااللفظ۔)

اور آپ نے زیارت قبور کے آداب کی تعلیم میں فرمایا کہ جب قبرستان میں جاؤ تو یوں کہو:

(السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ،نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ)

’’اے ان گھروں کے رہنے والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو۔ ہم بھی ان شاءاللہ تمہارے ساتھ آ ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے لیے اور تمہارے لیے آرام و راحت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب مایقال عنددخول القبور،حدیچ:975وسنن النسائی،کتاب الجنائز،باب الامر بالاستغفار للمومنین،حدیث:2040وسنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب مایقال اذادخل المقابر،حدیث:1547۔)

زیارت قبور کا اصل مقصد یہی ہے۔ لیکن اگر نیت یہ ہو کہ ان اموات سے تبرک حاصل ہو گا، ان سے مدد مانگی جائے گی، ضروریات طلب کی جائیں گی، تو یہ زیارت مشرکانہ ہو گی۔ ایسا زائد شرک اکبر کا مرتکب ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ یہ عمل بغیر سفر کے ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’پالان صرف تین مساجد ہی کی طرف کسے جائیں: مسجد حرام (مکہ مکرمہ) میری یہ مسجد (مسجد نبوی، مدینہ منورہ) اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب جزاءالصید،باب حج النساء،حدیث:1864،وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب لاتشدالرحال الاالی ثلاثة مساجد،حدیث:1397وسنن ابي داؤد،کتاب المناسک،باب فی اتیان المدینة،حدیث:2033وسنن الترمذي،ابواب الصلاة،باب الی المساجد افضل،حدیث:326۔سنن النسائي(700)۔سنن ابن ماجہ(1409)۔)

تو آدمی کو بقصد تبرک یا عبادت کہیں کا سفر نہیں کرن چاہئے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور جن تین مساجد کے لیے مشروع کیا ہے، ان میں بھی مقصود نماز اور اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے، کیونکہ یہ انبیاءے کرام علیہم السلام کی مساجد ہیں۔

اور قبریں اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے لیے سفر کیا جائے خواہ وہ انبیاء کی قبریں ہوں یا اولیاء اور صالحین کی۔ اور یہ زیارت صرف مردوں کے لیے مباح ہے اور یہ کہ اس میں مسلمان اموات کے لیے دعا ہو اور ان کے احوال سے عبرت حاصل ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 878

محدث فتویٰ

تبصرے