السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یتیموں کے ولی اور سرپرست کے لیے کب جائز ہوتا ہے کہ ان کے مال ان کے حوالے اور سپرد کر دے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یتیموں کے مال ان کے حوالے اور سپرد اسی وقت کرنے چاہئیں جب واضح ہو کہ اب یہ اپنے مالی تصرفات کو خوب سمجھنے لگے ہیں اور اسے ضائع اور حرام میں خرچ نہیں کریں گے، اور ان کا محض بالغ ہو جانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ بلوغت کے بعد مالی معاملات میں دانا ہونا شرط ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَابتَلُوا اليَتـٰمىٰ حَتّىٰ إِذا بَلَغُوا النِّكاحَ فَإِن ءانَستُم مِنهُم رُشدًا فَادفَعوا إِلَيهِم أَموٰلَهُم...﴿٦﴾... سورةالنساء
’’اور یتیم بچوں کو سدھارتے اور آزماتے رہو حتیٰ کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں (بالغ ہو جائیں) تو اگر ان میں سمجھداری پاؤ تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو۔‘‘
اور یتیمی کی انتہاء بلوغت پر ہے۔ اور بلوغت کی علامت یہ ہے کہ شرمگاہ کے اردگرد سخت بال اُگ آئیں یا عمر پندرہ سال ہو جائے یا انزال منی ہو، نیند میں یا جگتے میں۔ اور عورت بھی مرد ہی کی مانند ہے، البتہ اس میں دو علامتیں اور ہیں کہ اسے حیض آنے لگے یا حمل کے لائق ہو جائے۔
اور عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے شوہر کی عصمت میں رہتے ہوئے، شوہر سے کوئی جائیداد وغیرہ خرید سکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب