سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1215) ایک بیٹے کے ساتھ دوسرے بیٹوں سے زیادہ تعاون کرنا

  • 18822
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 837

سوال

(1215) ایک بیٹے کے ساتھ دوسرے بیٹوں سے زیادہ تعاون کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میرے لیے جائز ہے کہ اپنے بیٹے کو وہ کچھ دوں جو دوسرے کو نہ دوں، اس لیے کہ وہ غنی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کو یہ روا نہیں کہ اپنی اولاد میں سے، خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، کسی ایک کو بالخصوص دیں اور دوسروں کو نہ دیں۔ واجب ہے کہ حسب وراثت ان میں عدل سے کام لیں۔ یا کسی کو کچھ نہ دیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولادوں میں عدل کیا کرو۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الھبة وفضلھا،باب الاشھاد فی الھبة،حدیث:2447ومصنف ابن ابی شیبۃ:233/6،حدیث:30989۔) لیکن اگر وہ بالغ اور سمجھ دار ہوں اور وہ آپ کی اس تخصیص پر راضی ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ ایسے ہی اگر اولاد میں سے کوئی لاچار ہو، کما نہ سکتا ہو، اسے بیماری وغیرہ کا کوئی عارضہ ہو یا کوئی اور رکاوٹ ہو کہ آمدنی بہت کم ہو اور باپ یا بھائی نہ ہوں کہ اس پر خرچ کریں اور نہ حکومت ہی کی طرف سے کوئی وظیفہ ملتا ہو تو آپ (ماں) پر لازم ہے کہ اس کی ضرورت کے مطابق اس پر خرچ کریں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 860

محدث فتویٰ

تبصرے