السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کی اولاد ہے جو آپس میں حقیقی بھائی نہیں ہیں۔ عورت نے اپنے حصے سے ایک بچے کو کچھ ہبہ کر دیا، دوسروں کو کچھ نہیں دیا، پھر اس کی وفات ہو گئی۔ وہ خود اسی مکان میں مقیم تھی جو اس نے ہبہ کیا تھا، تو کیا اس کا صدقہ صحیح ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر وہ ہبہ قبضہ میں نہیں لیا گیا تھاا، حتیٰ کہ اس کی وفات ہو گئی تو ائمہ اربعہ کے مشہور قول کے مطابق اس کا یہ ہبہ باطل ہو جائے گا۔ اور اگر وہ قبضے میں دے چکی تھی تو اس کا یہ عمل یعنی صرف ایک شخص کے لیے ہبہ خاص کرنا جائز نہیں، بلکہ یہ اس کے اور دوسرے بھائیوں کے درمیان مشترک ہو گا۔
اگر صدقہ کیا گیا مال صدقہ کرنے والے کے قبضے ہی میں ہو، حتیٰ کہ اس کی وفات ہو جائے تو باتفاق ائمہ ان کے مشہور قول کے مطابق وہ صدقہ باطل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی حاکم اسے ثابت بھی کرے، تو اس کا یہ فیصلہ اس کو صحیح نہیں کر سکتا جبکہ دوسرے وارث موجود ہوں تو اس صورت میں کوئی صاحب علم اس طرح کا فیصلہ نہیں دے سکتا، سوائے اس کے کہ مسئلہ کی شکل ہی کوئی اور ہو۔
اگر صاحب صدقہ نے اپنا صدقہ اس شخص کے حوالے کر دیا ہو جسے وہ دینا تھا، تو علماء کے نزدیک معروف ہے کہ یہ صدقہ اسی صورت میں درست ہو گا جب اس کی کوئی اور اولاد نہ ہو۔ اگر اس کی اور اولاد بھی ہو تو ضروری ہے کہ انہیں بھی اسی طرح کا صدقہ دے ورنہ اسے واپس لینا واجب ہو گا۔
صحیح احادیث میں آیا ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام بطور عطیہ عنایت کیا تو میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس کے لیے اس وقت تک راضی نہیں ہو سکتی جب تک کہ آپ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے میرے والد سے دریافت فرمایا: کیا تیرے اور بچے ہیں؟ کہا کہ ہاں۔ فرمایا: ’’تو کیا تو نے سب کو اسی طرح کا مال دیا ہے جو اسے دیا ہے؟‘‘ کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس پر کسی اور کو گواہ بنا لو۔‘‘ (سنن ابي داؤد،کتاب الاجارة،باب فی الرجل یفضل بعض ولدہ فی النحل،حدیث..........ومسند احمد بن حنبل:258/4،حدیث:18389۔) دوسرے الفاظ یوں ہیں: ’’مجھے گواہ نہ بناؤ، میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولادوں میں عدل کیا کرو۔‘‘ چنانچہ وہ اس نے لوٹا لیا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب