السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک ہمسایہ عیسائی ہے، کیا مجھے ان کے ہاں وفات پر تعزیت کے لیے جانا چاہئے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر آپ اس کے ہاں جائیں اور یوں کہیں: ’’بقا صرف اللہ کے لیے ہے‘‘ تاکہ اس کی تالیف قلبی ہو اور وہ اسلام کی خوبیوں سے آگاہ ہو کہ اسلام رحمت و شفقت کا دین ہے۔ اور آپ کو اس لیے بھی جانا چاہئے کہ وہ ہمسائی ہے، اور ہمسائے کے بہرحال حقوق ہیں، خواہ وہ کافر ہی ہو تو اس کا حق ہے یعنی حق ہمسائیگی۔ اگر وہ مسلمان ہو تو اس کے دو حق ہیں، حق اسلام اور حق ہمسائیگی۔ اور اگر وہ رشتہ دار ہو تو اس کے تین حقوق ہوتے ہیں، حق اسلام، حق ہمسائیگی اور حق تعلق داری۔ اور یہ مسئلہ طبرانی میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بسند صحیح ثابت ہے۔
البتہ اپنے آپ اس کافر ہمسائے کو تعزیت میں یوں نہ کہیں کہ صبر کرو اور اجروثواب کی امید رکھو، یا اللہ اس پر رحمت کرے وغیرہ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربىٰ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحـٰبُ الجَحيمِ ﴿١١٣﴾... سورةالتوبة
’’نبی اور اہل ایمان کے لیے لائق نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، خواہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہو، بعد اس کے کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ وہ جہنمی ہیں۔‘‘
بعض اوقات یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجلس کے اندر جان بوجھ کر چھینکیں مارتے تھے اور توقع رکھتے تھے کہ آپ انہیں دعاا دیں گے، مگر آپ ان کی چھینک کا کوئی جواب نہ دیتے تھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب