سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1199) عیدیں کے موقع پر خاص قسم کے کیک کاٹنا

  • 18806
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 777

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں کچھ رواج ہیں جو ہمیں اپنے بڑوں سے ملے ہیں کہ عیدالفطر کے موقع پر خاص قسم کے کیک، ستائیس رجب، پندرہ شعبان اور عاشورہ محرم کے مواقع پر خاص کھانے اور حلوہ جات بنائے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے مواقع پر خوشی کا اظہار کرنا اور کھانے پینے وغیرہ کا خاص اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرٍ لِلَّهِ)

’’یدالاضحیٰ کے بعد تین دن ایام تشریق کھانے، پینے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب تحریم صوم ایام التشریق،حدیث:1141سنن ابي داود،کتاب الضحایا،باب فی حبس لحوم الاضاحي،حدیث:2813ومسند احمد بن حنبل:حدیث:20741۔)

کہ لوگ اس موقع پر قربانیاں کرتے، گوشت کھاتے اور اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور یہی حکم عیدالفطر کا ہے، بشرطیکہ شرعی حدود سے تجاوز نہ ہو۔

لیکن ستائیس رجب، پندرہ شعبان اور عاشورہ محرم کے مواقع پر خوشی کا اظہار، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ منع ہے، مسلمان آدمی کو ان مواقع کی دعوتیں قبول نہیں کرنی چاہئیں۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: ’’نئے نئے کاموں سے دور رہو، (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ (سنن ابي داود،کتاب السنة،باب فی لزوم السنة،حدیث:4607،سنن ابن ماجہ،کتاب الایمان وفضائل الصحابۃوالعلم،باب اجتناب البدع والجدل،حدیث:46ومسند احمد بن حنبل:126/4،حدیث:17184۔)

ستائیس رجب کے بارے میں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ معراج کی رات ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں پر لے جایا گیا تھا۔ مگر تاریخی اعتبار سے یہ بات ثابت نہیں ہے اور جو بات ثابت نہ ہو وہ باطل ہوتی ہے، اور جو کام کسی باطل پر مبنی ہو وہ باطل ہوا کرتا ہے۔ اگر بالفرض معراج اس رات میں ہوئی بھی ہو تو بھی ہمارے لیے جائز نہ ہو گا کہ اسے بطور عید منانا شروع کر دیں یا اس میں کوئی خاص عبدت شروع کر دیں۔ کیونکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں ہیں۔ حالانکہ صحابہ کرام ان اعمال خیر کے زیادہ لائق تھے۔ وہ آپ علیہ السلام کی سنت اور آپ کی شریعت کی اتباع کے بڑے ہی شائق تھے۔ ہمارے لیے کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں نہیں ہوا، اسے ہم شروع کر دیں۔

اسی طرح پندرہ شعبان کی رات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں ہے۔ یہ کہ آپ نے بالخصوص اس میں کوئی عبادت کی ہو۔ ہاں کچھ تابعین سے نماز اور ذکر کا بیان آتا ہے، نہ کہ کھانے پینے اور عید منانے کا۔

یوم عاشور کے روزے کے متعلق آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا: ’’یہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب استحباب ثلاثة ایام من کل شھر وصوم یوم عرفة وعاشوراءوالاثنین، حدیث:1162وسنن ابي داود،کتاب الصیام،باب في صوم الدھر تطوعا،حدیث:2425وسنن الترمذي،کتاب الصوم،باب الحث علی صوم یوم عاشوراء،حدیث:752۔) مگر اس دن کسی عید کا منانا یا غم کا اظہار کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ دونوں کام خلاف سنت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں صرف روزے کا آیا ہے اور یہ کہ اس سے پہلے ایک دن یا اس کے بعد ایک دن کا مزید روزہ رکھ لیں تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو جائے کیونکہ وہ صرف اس ایک دن کا روزہ رکھتے تھے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 848

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ