سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(422) زانی مرد کا زانی عورت سے نکاح کرنا

  • 1880
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4261

سوال

(422) زانی مرد کا زانی عورت سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) میرا ایک دوست ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جس کے والدین اور لڑکی قبروں پر جا کر دعائیں کرتے ہیں میرا مطلب ہے کہ درباروں پر جاتے ہیں گیارہویں اور ختم وغیرہ بھی ان کے ہاں جائز ہے تو کیا ایسی لڑکی سے شادی کرنا درست ہے ؟

(2) ہمیں بتایا گیا ہے کہ فلاں آدمی نے بازاری عورت سے شادی کی ہے شادی سے پہلے وہ مرد اس عورت سے ناجائز تعلقات قائم کرتا رہا ہے اور اب انہوں نے شادی کر لی ہے ہمارے ایک قاری صاحب کہتے ہیں کہ جس سے زنا کیا جائے اس سے نکاح نہیں ہو سکتا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) درست ہے بشرطیکہ اس لڑکی کو اور اس لڑکی کے خاندان کو ان غلط عقائد واعمال سے بچانا مقصود ہو نیز عفت وپاکدامنی مراد ہو۔

(2) قاری صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی بات درست ہے واقعی ایسا نکاح حرام ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾--نور

3 ’’اور حرام کیا گیا ہے یہ اوپر ایمان داروں کے۔‘

زانی کا زانیہ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کا زانی یا مشرک کے ساتھ نکاح مومنوں پر حرام ہے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اس مقام پر ذٰلک اسم اشارہ سے زنا مراد لینا ضعیف اور کمزور ہے‘‘ نیز نکاح کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمانا﴿مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ﴾--النساء25 ’’وہ پاک دامن ہوں نہ اعلانیہ زنا کرنے والی نہ چھپے یاروں والی ] اور بیان کرنا ﴿مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیٓ أَخْدَانٍ﴾--مائدة5 ’’تمہاری نیت نکاح کی ہو نہ زنا کرنے کی اور نہ پکڑنے والے چھپی دوستی‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے مرد اور عورت دونوں کا عفیف اور پاکدامن ہونا ضروری ہے مزید تفصیل کے لیے سورۃ النور کے آغاز والی آیات کی تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں پڑھ لیں۔ ہاں زنا کے بعد توبہ ہو جائے اور ان کی توبہ کا مبنی بر اخلاص ہونا شواہد وقرائن سے لوگوں پر واضح ہو جائے تو بعد ازاں انکا نکاح درست ہوگا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نکاح کے مسائل ج1ص 304

محدث فتویٰ

 

تبصرے