السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں وارد الفاظ ' المائلات مميلات ' کا کیا مفہوم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا بَعْدُ: رجال بأيديهم سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا "
’’دو طرح کے لوگ ہیں جو دوزخی ہوں گے، میں نے انہیں نہیں دیکھا ہے۔ ایک مرد ہوں گے، ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دُمیں ہوں، ان سے لوگوں کو مارتے ہوں گے، اور دوسری عورتیں ہوں گی کپڑے پہنے ہوئے مگر ننگی، مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی، ان کے سر بختی اونٹوں کی طرح ڈھلکے ہوئے ہوں گے، یہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور نہ اس کی خوشبو ہی پا سکیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینة،باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:355/2،حدیث:8650والسنن الکبری للبیھقي:234/2،حدیث:3077)یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق اور تقدیم وتاخیر کے ساتھ مروی ہے۔)
اس میں بہت بڑی وعید ہے جس سے ڈرنا اور بچنا واجب ہے۔
مرد جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناحق لوگوں کو مارتے ہوں جیسے کہ پولیس والے یا دوسرے ہوتے ہیں، خواہ وہ اہل حکومت کے حکم سے کریں یا اس کے علاوہ اپنے طور پر۔ حالانکہ حکومت کی بات صرف نیکی اور معروف میں قابل اطاعت ہوتی ہے۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: (إنما الطاعة فى المعروف) "اطاعت صرف معروف اور نیکی میں ہے۔‘‘
آپ کا فرمان: ’’عورتیں ہوں گی کپڑے پہنے ہوئے مگر ننگی۔۔‘‘ اہل علم نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’پہنے ہوں گی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، اور ’’ننگی‘‘ ہوں گی۔‘‘ یعنی ان کے شکر سے۔ اللہ کی طاعت گزار نہ ہوں گی۔ اللہ کے انعامات مال وغیرہ پا کر گناہ اور برے کاموں سے باز نہ آتی ہوں گی۔ یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ ان کا لباس ایسا ہو گا جو انہیں چھپاتا نہ ہو گا، یا تو بہت باریک ہو گا یا اس قدر مختصر ہو گا جس سے پردے کا فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو گا۔ اس کے بعد "عاریات"فرمایا کہ ان کا لباس ان کا ستر نہیں ڈھانپتا ہو گا۔
' مائلات ' "مائل ہونے والی" یعنی عفت و پاکدامنی سے اور دین میں پختگی اور استقامت سے۔ ان کے گناہ اور نافرمانیاں ان عورتوں کی طرح ہوں گی جو فحش اور بدکاری کی مرتکب ہوتی ہیں۔ یا نمازوں وغیرہ کے فرائض کی ادائیگی میں انتہائی قاصر ہوں گی۔
' مميلات 'یعنی دوسروں کو اپنے اقوال و افعال اور کردار سے شر اور فساد کی دعوت دینے والی ہوں گی۔ایمان سے محرومی یا کمزوریِ ایمان کے باعث فواحش کی مرتکب اور دوسروں کو دعوت دیتی ہوں گی۔
اس حدیث میں درس یہی ہے کہ مختلف قسم کے ظلم و ستم اور شر و فساد سے بچنا چاہئے۔ مرد ہوں یا عورتیں، سب کو اس سے خبردار رہنا ضروری ہے۔
"ان کے سر بختی ونٹوں کے ڈھلکے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔"بعض اہل علم کے بقول یہ عورتیں اپنے سروں پر بال اور لفافے اس طرح سے رکھیں گی کہ ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ بختی اونٹوں کے دو کوہان ہوتے ہیں، درمیان میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے اور وہ ایک جانب کو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو اسی طرح یہ عورتیں بھی اپنے سروں کو ان کی طرح بنانے والی ہوں گی۔
آپ کا فرمان "یہ جنت میں داخل نہیں ہو گی" یہ بڑی سخت وعید ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کافر ہوں گی یا ہمیشہ جہنم میں رہیں گی، بشرطیکہ اسلام پر ان کی موت ہوئی ہو، بلکہ اس میں انہیں اور دیگر گناہ گاروں سب کو آگ سے ڈرایا گیا ہے، اور یہ لوگ اللہکی مشیت میں ہیں۔ چاہے تو معاف فرما دے اور چاہے تو عذاب دے، جیسے کہ اللہ عزوجل نے سورۃ النساء میں دو جگہ فرمایا ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ...﴿٤٨﴾... سورةالنساء
’’اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے علاوہ کو جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔‘‘
اور گناہ گار لوگ جو جہنم میں جائیں گے وہ کافروں کی طرح ہمیشہ ہی اس میں نہیں رہیں گے مثلا قاتل، زانی، اور خودکشی کرنے والا وغیرہ۔ اس کا جہنم میں رہنا کفار کی طرح نہیں ہو گا بلکہ یہ ’’خلود‘‘ ایسا ہو گا جو ایک مدت کے بعد ختم ہو جائے گا۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا مسلک ہے، بخلاف خوارج، معتزلہ اور دیگر ان کی طرح کے اہل بدعت کے کہ وہ انہیں ابدی جہنمی کہتے ہیں۔ صحیح متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے گناہ گاروں کے لیے کئی بار سفارش فرمائیں گے اور اللہ عزوجل بھی اسے قبول فرمائے گا اور ہر بار آپ کے لیے ایک حد متعین کر دی جائے گی، تو آپ ان لوگوں کو جہنم سے نکالیں گے۔آپ کے علاوہ دیگر انبیاء و رسل، مومنین، فرشتے اور صغیر السن بچے، یہ سب اللہ کی اجزت سے سفارش کریں گے، اور اللہ تعالیٰ بھی جن اہل توحید کے لیے چاہے گا قبول فرمائے گا۔اور آخر میں کچھ گناہ گار ایسے بھی ہوں گے جو سابقہ سفارشوں سے وہ جانے والے ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے خاص فضل و احسان سے انہیں بھی نکال دے گا، اور پھر جہنم میں صرف اور صرف کفار ہی رہ جائیں گے جو ہمیشہ ہمیش کے لیے اس میں رہیں گے، جن کے بارے میں فرمایا:
﴿كُلَّما خَبَت زِدنـٰهُم سَعيرًا ﴿٩٧﴾... سورة الإسراء
’’جب کبھی وہ آگ ہلکی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَذوقوا فَلَن نَزيدَكُم إِلّا عَذابًا ﴿٣٠﴾... سورة النبا
’’تو چکھو (اپنے کرتوتوں کا وبال) ہم تمہیں عذاب ہی میں بڑھائیں گے۔‘‘
بت پرست کافروں کے بارے میں فرمایا:
﴿كَذٰلِكَ يُريهِمُ اللَّهُ أَعمـٰلَهُم حَسَرٰتٍ عَلَيهِم وَما هُم بِخـٰرِجينَ مِنَ النّارِ ﴿١٦٧﴾... سورة البقرة
’’اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا، حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہ نکلیں گے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذينَ كَفَروا لَو أَنَّ لَهُم ما فِى الأَرضِ جَميعًا وَمِثلَهُ مَعَهُ لِيَفتَدوا بِهِ مِن عَذابِ يَومِ القِيـٰمَةِ ما تُقُبِّلَ مِنهُم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٣٦﴾... سورةالمائدة
’’یقین مانو کہ کافروں کے لیے اگر وہ سب کچھ ہو جو ساری زمین میں ہے، بلکہ اس کے مثل اور بھی ہو، اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیے میں دینا چاہیں تو بھی ناممکن ہے کہ ان کا فدیہ قبول کر لیا جائے۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہی ہے۔‘‘
اور اس معنی کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح سے عافیت دے اور ان کے حال سے محفوظ رکھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب