سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1168) اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم

  • 18775
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2788

سوال

(1168) اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کا کیا حکم ہے؟ اگر یہ منسوخ ہے تو اس کی ناسخ کون سی حدیث ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کا حکم دو صحیح حدیثوں سے ثابت ہے:

1۔ صحیح مسلم اور مسند میں حضرت جابر بن سمرہ رضی للہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا: کیا ہم بکریوں کے گوشت سے وضو کریں؟ فرمایا: ’’چاہو تو وضو کر لو اور چاہو تو نہ کرو۔‘‘ اس نے کہا: کیا ہم اونٹ کے گوشت سے وضو کریں؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں، اونٹ کے گوشت سے وضو کرو۔‘‘ اس نے کہا: ’’کیا ہم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیں؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس نے پوچھا: ’’کیا ہم اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لیں؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب الوضوءمن لحوم الابل،حدیث:360مسند احمد بن حنبل:98/5،حدیث:20963وصحیح ابن حبان:431/3،حدیث:1154۔)

2۔ دوسری حدیث مسند احمد اور ابوداؤد میں آئی ہے اور حافظ بیہقی وغیرہ نے اس کو صحیح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کے گوشت سے وضو کا پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اس سے وضو کرو۔‘‘ پھر بکریوں کے گوشت سے وضو کا پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اس سے وضو کی ضرورت نہیں۔‘‘ آپ سے اونٹوں کے باڑوں میں نماز کا پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اس میں نماز نہ پڑھو، بلاشبہ یہ شیطان (صفت) ہوتے ہیں۔‘‘ آپ سے بکریوں کے باڑوں میں نماز کا پوچھا گیا، تو فرمایا: "اس میں نماز پڑھ لو، بلاشبہ یہ بابرکت ہوتی ہیں۔‘‘(سنن ابی داود،کتاب الطہارۃ،باب الوضوءمن لحوم الابل،حدیث:184ومسند احمد بن حنبل:288/4،حدیث:18561۔)

ان دو حدیثوں کی روشنی میں امام احمد، اسحاق بن راہویہ، اہل ظاہر، علمائے شافعیہ میں سے ابن منذر ابن کزیمہ اور بیہقی وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم اونٹ کے گوشت سے وضو کرنا لازم کہتے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اگر اونٹ کے گوشت کے بارے میں حدیث صحیح ہوتی تو میں اس کے بموجب فتویٰ دیتا۔ اس پر امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ لکھا ہے: ’’میں کہتا ہوں کہ اس بارے میں دو حدیثیں صحیح ثابت ہیں۔‘‘ امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہم اور جمہور اس طرف گئے ہیں کہ ونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کی حدیث منسوخ ہے۔ ان کے بقول اس کی ناسخ وہ حدیثیں ہیں جن سے آگ سے متاثرہ چیزوں سے وضو کرنے کا حکم منسوخ ہے۔ مثلا صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ، زید بن ثابت اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماایا: ’’جس چیز کو آگ نے چھوا ہو اس سے وضو کرو۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب الوضوءممامست النار،حدیث:351،352،353وسنن ابی داود،کتاب الطہارۃ،باب التشدید في ذلک،حدیث:195وسنن النسائی،کتاب الطہارۃ،باب الوضوءمماغیرت النار،حدیث:171وسنن ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ وسننھا،باب الوضوءمماغیرت النار،حدیث:486۔) تو ان کے بقول جن احادیث سے یہ حکم منسوخ ہے ان سے اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم بھی منسوخ ہے۔

فریق اول کہتا ہے کہ امام نووی اور شافعی رحمہما اللہ کے بقول ونٹ کے گوشت سے وضو واجب ہونا راجح ہے ان حضرات کے نزدیک جو وضو واجب کہتے ہیں کہ آگ سے متاثرہ چیزوں سے وضو کا حکم عام اور اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم خاص ہے، اور عام کو خاص پر مطلقا بنا کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اہل علم نے اسے مطلق نہیں کہا ہے۔ ان کے نزدیک عام حکم جو متاخر ہو وہ سابقہ خاص حکم کا بھی ناسخ ہو سکتا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔

اور حنابلہ کے نزدیک، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے، اونٹ کے گوشت سے وضو کرنا واجب ہے۔ کیونکہ اگر آپ اونٹ کے گوشت سے وضو کی حدیث کو آگ کی پکی اشیاء سے وضو کی احادیث کو ناسخ بنائیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بکری کے گوشت سے وضو نہ کرنے کا حکم، آگ سے پکی اشیاء سے وضو کے نسخ کے بعد کا ہے۔ حالانکہ آپ علیہ السلام نے دونوں میں فرق کیا ہے، جبکہ بکری اور اونٹ دونوں کے گوشت آگ پر پکتے ہیں۔ اس میں اس کی وضاحت ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو کے حکم کا آگ اور عدم آگ سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ خاص اونٹ کے گوشت سے متعلق ہے۔ اور اس پر حضرت براء رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ ’’یہ اونٹ شیطان (صفت) ہوتے ہیں۔‘‘

تاہم اونٹوں کا پیشاب پاک ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ میں آئے تو آپ علیہ السلام نے انہیں صدقے کے اونٹ دیے اور فرمایا کہ باہر جنگل میں چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب الوضوءباب ابوال الابل والدواب والغنم ومرابضھا،حدیث:231وصحیح مسلم،کتاب القسامۃ،باب حکم المحاربین والمرتدین،حدیث:1671وسنن ابی داود،کتاب الحدود،باب ماجاءفی المحاربة،حدیث:4364وسنن الترمذی،کتاب الاطعمة،باب شرب ابوال الابل،حدیث:1845۔)

وہ اجڈ اعرابی لوگ تھے، شرعی احکام سے کوئی زیادہ آگاہ نہ تھے۔ اگر اونٹوں کا پیشاب نجس ہوتا تو آپ انہیں کم از کم یہ حکم ضرور دیتے کہ اسے پینے کے بعد کلی کر لیا کرنا۔ الغرض اونٹوں کے پیشاب کے بارے میں امام احمد اور امام رحمہ اللہ بھی اس کے پاس ہونے کے قائل ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 815

محدث فتویٰ

تبصرے