السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم یہ حدیث سنتی ہیں کہ "عورتیں عقل اور دین میں ناقص ہیں" اور پھر کچھ مرد یہ حدیث لے کر عورتوں سے برا سلوک کرنے لگتے ہیں۔ براہ مہربانی اس حدیث کی وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث: (ما رأيت من ناقصات عقل و دين أغلب للب الرجل الحازم من إحداكن) "میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر کسی کم عقل اور ناقص دین کو نہیں دیکھا جو ایک عقلمند سمجھدار مرد کی عقل پر غالب آ جانے والی ہو۔" آپ سے پوچھا گیا، "اے اللہ کے رسول! اس کی کم عقلی کیا ہے؟" فرمایا: "کیا دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر نہیں ہوتی؟" اور پھر پوچھا گیا کہ "اس کے دین میں کیا نقص ہے؟" فرمایا: "کیا یہ بات نہیں کہ جب یہ ایام سے ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھتی، روزے نہیں رکھتی؟" آپ نے واضح فرمایا کہ عقل کی کمی اس کے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے ہے، اس لیے اس کی گواہی دوسری عورت کے ساتھ ملانے سے پوری ہوتی ہے۔ یہ بالعموم بھول جاتی اور اس میں کمی بیشی کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِجالِكُم فَإِن لَم يَكونا رَجُلَينِ فَرَجُلٌ وَامرَأَتانِ مِمَّن تَرضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ أَن تَضِلَّ إِحدىٰهُما فَتُذَكِّرَ إِحدىٰهُمَا الأُخرىٰ...﴿٢٨٢﴾... سورةالبقرة
’’اور اپنے میں سے دو مرد گواہ بنا لیا کرو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے۔‘‘
اور دین میں نقص یہ ہے کہ حیض و نفاس کے ایام میں یہ نماز روزہ چھوڑ دیتی ہے اور پھر نماز کی قضا بھی نہیں دیتی، تو یہ اس کے دین کی کمی ہے۔ لیکن یہ نقص ایسا نہیں ہے کہ اس پر اس کا مواخذہ اور پکڑ ہو، بلکہ یہ اللہ کی شریعت میں ان کے لیے نرمی اور آسانی کے لیے ہے۔ کیونکہ ایام حیض و نفاس کی صورت میں اگر یہ روزے رکھے گی تو اس کے لیے مشقت ہو گی۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان ایام میں روزوں کی رخصت دی ہے کہ بعد میں ان کی قضا دے لیں۔
اور نماز اس لیے نہیں پڑھ سکتی کہ یہ طہارت سے نہیں ہوتی۔ لہذا اللہ نے شریعت بنا دی کہ حیض و نفاس کے دنوں میں یہ نماز نہ پڑھے، اور پھر قضا دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس میں بہت مشقت ہوتی۔ نمازیں روز کی پانچ ہیں، اور ایام مخصوصہ بعض اوقات آٹھ نو دن تک جاری رہتے ہیں، اور ایام نفاس چالیس دنوں تک چلے جاتے ہیں۔ لہذا اللہ نے اپنی رحمت و احسان سے نماز ادا کرنے یا اس کی قضا دینے کی معافی دے دی ہے۔
اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ عورت ہر ہر شے میں کم عقل اور ہر ہر معاملے میں ناقص دین ہے۔ بلکہ وہ اسی قدر ہے جو آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ گواہی کے معاملے میں اسے بات پوری طرح یاد نہ رہی ہو، اور دین کے معاملہ میں وہ نماز روزہ چھوڑے رہتی ہے۔
اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ یہ ہر ہر معاملہ میں مرد سے کم اور مرد اس سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے مردوں کی جنس، عورتوں کی جنس کے مقابلے میں مجموعی طور پر افضل ہے۔ اور اس کے کئی اسباب ہیں، جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:
﴿الرِّجالُ قَوّٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَموٰلِهِم...﴿٣٤﴾... سورةالنساء
’’مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس سبب سے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
جبکہ بعض اوقات بہت سے معاملات میں عورتیں اپنی عقل، اپنے دین اور حفظ و ضبط کے اعتبار سے بہت سے مردوں سے فائق ہوتی ہیں۔ اور حدیث میں صرف جنس کی افضیلت بتائی گئی ہے۔ کئی عورتیں اعمال صالحہ میں بہت سے مردوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں، ان کا تقویٰ مردوں سے بڑھ کر ہوتا ہے اور آخرت میں بھی بعض عورتیں بہت سے مردوں سے افضل ہوں گی۔ اور بعض معاملات میں ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کا حفظ و ضبط بہت سے مردوں سے بڑھ کر ہوتا ہے، اور یہ صورت مسائل میں بھی ہوتی ہے تو تاریخ اسلامی وغیرہ میں یہ مرجع بن جاتی ہے۔ اس کمی کے باعث اس کی روایت کو ناقابل اعتماد نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اور ایسے ہی گواہی کے معاملہ میں جب یہ کسی دوسری عورت کے ساتھ مل کر گواہی دے۔ ایسے ہی اگر کوئی عورت اپنے دین میں پختہ ہو اور صاحب تقویٰ ہو تو اللہ کے مقرب بندوں اور مقرب بندیوں میں سے ہو سکتی ہے۔ خواہ نماز روزے کے معاملے میں اسے ایک خاص رعایت حاصل ہے۔
لہذا کسی بھی صاحب ایمان کو روا نہیں ہے کہ عورت کو ہر ہر معاملے میں ناقص العقل اور دین کے سب پہلوؤں سے اسے ناقص الدین قرار دے۔ بلکہ وہ خاص امور ہیں جن کی آپ علیہ السلام نے وضاحت فرما دی ہے۔ اور آپ علیہ السلام کے فرامین کا بہترین مفہوم ہی مراد لینا چاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب