سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1154) ایسی چیزوں کا استعمال جن حمل ساقط ہو

  • 18761
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 608

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایسی چیزیں استعمال کرنا جن سے حمل ساقط ہو جائے، ان کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حمل ساقط کرنے کے عمل کی دو صورتیں ہیں:

(1)۔۔ ساقط کرانے کا مقصد اس بچے کو تلف کرنا ہو۔ اگر یہ جان پڑنے کے بعد ہو تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک محترم جان کو ناحق قتل کرنا ہے جو کتاب و سنت اور اجماع مسلمین  سب کی رو سے حرام ہے۔ اگر جان پڑنے سے پہلے ہو تو اس کے جواز میں علماء کا اکتلاف ہے۔ بعض جائز اور بعض ناجائز کہتے ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ چالیس دن گزرنے اور لوتھڑا بننے سے پہلے جائز ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ جب تک شکل نہ بنے جائز ہے۔ مگر احتیاط اس میں ہے کہ انتہائی ضرورت کے بغیر یہ کام ناجائز ہے۔ مثلا ماں بیمار ہو اور حمل کے مشاکل کی متحمل نہ ہو سکتی ہو تو جنین کے انسانی شکل بننے سے پہلے پہلے اسقاط کرانا ممکن ہے، ورنہ منع ہے۔ واللہ اعلم۔

(2) ۔۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حمل کو تلف کرنا مقصد نہیں مگر آپریشن کی ضرورت پیش آ جائے تو اس کی چار صورتیں ہیں:

1: ماں زندہ ہو، بچہ بھی زندہ ہو، تو اشد ضرورت کے تحت آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ مثلا بچے کا جسم سے باہر آنا مشکل ہو، کیونکہ یہ جان بندے کے پاس مانت ہے۔ تو اس میں کسی اہم ترین مصلحت کے تحت ہی کوئی تصرف کرنا جائز ہو گا۔ بعض اوقات سمجھا جاتا ہے کہ آپریشن میں کوئی خطرہ نہیں، مگر خطرہ سامنے آ جاتا ہے۔

2: دوسری صورت یہ ہے کہ ماں مردہ ہو اور بچہ بھی مردہ ہو، تو اس میں آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔

3: تیسری صورت یہ ہے کہ ماں زندہ اور بچہ مردہ ہو، تو اس کو نکالنے کے لیے آپریشن کیا جائے، سوائے اس کے کہ ماں کے لیے کوئی خطرہ ہو، کیونکہ ظاہر یہی ہے، واللہ اعلم کہ مردہ بچے کا عام حالت میں نکلنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے آپریشن کیا جائے۔ اگر یہ اس کے پیٹ میں رہا تو ماں کے لیے اذیت کا باعث ہو گا، اور اگر وہ سابقہ شوہر سے عدت میں ہو تو مشقت میں پڑے گی۔

4: چوتھی صورت یہ ہے کہ ماں مردہ ہو اور ھمل زندہ ہو۔ اگر بچے کے زندہ بچ رہنے کی امید نہ ہو تو آپریشن درست نہیں۔ اگر بچ رہنے کی امید ہو، مثلا وہ آدھا اندر اور آدھا باہر ہو، تو آپریشن کیا جائے۔ اگر وہ جسم کے اندر ہی ہو تو ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ حمل نکالنے کے لیے ماں کا پیٹ چاک نہ کیا جائے، کیونکہ یہ مثلہ ہو گا۔ مگر صحیح یہ ہے کہ اس کے بغیر نہ نکل سکتا ہو تو پیٹ چاک کیا جائے۔ علامہ ابن ہبیرہ نے یہی قول اکتیار کیا ہے اور "الانصاف" میں اسے ہی راجح کہا گیا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ ہمارے اس دور میں پیٹ چاک کرنا (یا آپریشن کرنا) مثلہ نہیں ہے، بلکہ اسے بعد میں سی دیا جاتا ہے، اور زندہ جان کی حرمت مردہ سے بڑھ کر ہے، اور ایک معصوم جان کو ہلاکت سے بچانا واجب ہے۔ اور حمل بھی ایک معصوم انسان ہے تو اسے بچانا واجب ہے۔

ضروری نوٹ: ۔۔ مذکورہ بالا صورتوں میں جہاں حمل اسقاط کرانا جائز ہے، وہاں صاحب حمل یعنی شوہر سے بھی اجازت لینا ضروری ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 806

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ