السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حج وعمرہ میں حلق کی بجائے قص کروانا ہو تو بالوں کو کاٹنے کی صورت کیا ہونی چاہیے کیا کان کی کونپل سے کٹوانا جائز ہے جبکہ بال چھوڑنے کا ارادہ ہو یا سارے ہی سر سے بال کٹوانا ہوں گے اور حجام کو کیا کیفیت بتائی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احرام کھولتے وقت سر منڈانا افضل ہے اور تقصیر بھی درست ہے آپ کی ذکر کردہ تقصیر کی دونوں صورتوں میں سے سارے سر کے بال کٹوانا افضل ہے کیونکہ یہ صورت حلق کے زیادہ قریب ہے۔
از عبدالمنان نور پوری بطرف اخی المحترم جناب مولانا رحمت اللہ صاحب ربانی۔ حفظہما اﷲ تبارک وتعالی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اما بعد! خیریت موجود خیریت مطلوب ۔ مجلۃ الدعوۃ کے حالیہ شمارہ میں آپ کے بیان کردہ احکام ومسائل پڑھنے کا موقع ملا ماشاء اللہ آپ نے خوب تحقیق سے مسائل کو بیان فرمایا ہے اَللّٰہُمَّ زِدْ فَزِدْ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مزید توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین اس فرصت میں صرف چند چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے وہ بھی صرف جذبہ نصیحت وخیرخواہی کے تحت کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:«اَلدِّيْنُ النَّصِيْحَةُ» (الحدیث) جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ ان چیزوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جن پر انہوں نے رسول اللہﷺ کی بیعت فرمائی «وَالنُّصْحُ لِکُلِّ مُسْلِمٍ» مجھے آپ کا ڈاک پتہ معلوم نہیں اس لیے مجلۃ الدعوۃ کے پتہ پر مکتوب ارسال کر رہا ہوں امید ہے آپ محسوس نہیں فرمائیں گے ان شاء اللہ تبارک وتعالیٰ
(1) عمرہ کا سنت طریقہ بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں: ’’میقات سے احرام باندھے اور بیت اللہ پہنچ کر بیت اللہ کے گرد سات طواف کرے ‘‘ الخ الفاظ ’’سات طواف کرے ‘‘ کی جگہ یہ عبارت ’’سات اشواط (پھیروں) کا ایک طواف کرے‘‘ ہو تو بہت ہی زیادہ مناسب ہے۔
(2) آپ لکھتے ہیں : ’’جس نے حج کیا ہوا ہو وہ دوسرے کی طرف سے حج کر سکتا ہے اور اس پر قیاس کر کے عمرہ بھی کسی کی طرف سے ادا کر سکتا ہے ‘‘ معلوم ہو کہ کسی کی طرف سے عمرہ کرنے کی نص بھی موجود ہے چنانچہ مشکوٰۃ ہی میں کتاب المناسک الفصل الثانی میں لکھا ہے :
«وَعَنْ أَبِیْ رَزِيْنٍ الْعُقَيْلِیْ أَنَّه أَتَی النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ : يَا رَسُوْلُ اﷲِ إِنَّ أَبِیْ شَيْخٌ کَبِيْرٌ لاَ يَسْتَطِيْعُ الْحَجَّ وَلاَ الْعُمْرَةَ وَلاَ الظَّعنَ۔ قَالَ حُجَّ عَنْ أَبِيْکَ وَاعْتَمِر»رواه الترمذى و ابوداؤد والنسائى وقال الترمذى*هذا حديث حسن صحيح
’’ابی رزین عقیلی سے ہے بے شک وہ نبیﷺ کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ بے شک میرا باپ بوڑھا ہے وہ حج کی طاقت نہیں رکھتا نہ ہی عمرہ کی اور نہ ہی سفر کی تو آپﷺنے فرمایا تو اپنے باپ کی طرف سے حج کر اور عمرہ کر‘‘
(3)آپ لکھتے ہیں : ’’رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں آپ نے فرمایا رمضان میں میرے ساتھ عمرہ کرنا حج کے برابر ثواب رکھتا ہے مشکوٰۃ کتاب المناسک گویا یہ فضیلت حدیث کے مطابق آپ کے ساتھ حج کرنے سے مشروط ہے‘‘ آپ کی اس عبارت میں دو چیزیں توجہ طلب ہیں ۔ (1) میرے ساتھ عمرہ کرنا ۔ (2) آپ کے ساتھ حج کرنے سے مشروط ۔ یہ دونوں چیزیں مجھے مشکوٰۃ کتاب المناسک میں نہیں ملیں اور نہ ہی کسی اور کتاب حدیث میں میری نظر سے گزری ہیں برائے مہربانی آپ مجھے ان دو چیزوں کے بارے میں حوالہ سے مطلع فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں برکت فرمائے۔
مشکوٰۃ کتاب المناسک میں جو مجھے ملا وہ نیچے درج ہے:
«وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : إِنَّ عُمْرَةً فِی رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً»
’’بے شک رمضان میں عمرہ حج کے برابر(ثواب) ہے‘‘ (متفق علیہ) انتہی ہاں صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ لفظ بھی آئے ہیں
«حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرْنَا يَزِيْدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرْنَا حَبِيْبٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما قَالَ: لَمَّا رَجَعَ النَّبِیُّ ﷺ مِنْ حَجَّتِهِ قَالَ لِأُمِّ سِنَان الْأَنْصَارِيَّةِ : مَا مَنَعَکِ مِنَ الْحَجِّ ؟ قَالَتْ : أَبُوْ فُلاَنٍ -تَعْنِی زَوْجَهَا - کَانَ لَهُ نَاضِحَانِ حَجَّ عَلٰی أَحَدِهِمَا ، وَالْآخَرُ يَسْقِیْ أَرْضًا لَنَا قَالَ : فَإِنَّ عُمْرَةً فِیْ رَمَضَانَ تَقْضِیْ حَجَّةً مَعِیَ»كتاب جزاء الصيد باب حج النساء72/4 مع الفتح
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے کہ جب نبیﷺ اپنے حج سے واپس آئے تو آپ نے ام سنان انصاریہ رضی اللہ عنہا کو کہا کہ تجھے کس چیز نے حج سے روکا تو اس نے کہا ابو فلان نے وہ اپنا خاوند مراد لے رہی تھی اس کے دو اونٹ تھے پانی لادنے والے۔ ایک پر تو اس نے خود حج کیا اور دوسرا ہماری زمین کو پانی پلاتا تھا تو آپﷺ نے فرمایا پس بے شک رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کی قضاء پوری کرے گا‘‘
اگر مناسب خیال فرمائیں تو اصلاح فرما کر دوبارہ مجلہ میں شائع فرما دیں باقی میری طرف سے تمام احباب واخوان کی خدمت میں ہدیہ سلام پیش فرما دیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب