السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے لگی ہوں، وسعت بھر پڑھتی ہوں اور قرآن مجید بھی یاد کرتی ہوں۔ مگر پہلے بچے چھوٹے تھے، اب بڑے ہو گئے ہیں، ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور بیمار بھی رہنے لگی ہوں۔ دعوت کا کام جو ہو سکے کرتی ہوں۔ لیکن یہ احساس بڑی شدت سے ہے کہ میں کماحقہ علم حاصل نہیں کر رہی۔ بیٹی سولہ سال کی ہو گئی ہے اور مجھے زیادہ وقت گھر پر رہنا ہوتا ہے۔ تو اگر میں گھر ہی میں رہوں اور مطالعہ کروں اور ممکن حد تک دعوت کا کام بھی کروں تو کیا میں اس میں گناہ گار تو نہ ہوں گی کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی اور بچوں کو ترجیح دینے کی مجرم گردانی جاؤں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہیں، ہرگز نہیں، آپ ان میں سے نہیں ہیں۔ بلکہ بچوں کی تربیت اور ان کا خیال رکھنا ماں باپ کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ افسوس یہ کہ ہم لوگ اس پہلو سے بہت تقصیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَيها مَلـٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ ﴿٦﴾... سورةالتحريم
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچا لو، جس کا ایندھن لوگ ہوں گے اور پتھر، اس پر بڑے ترش رو اور سخت فرشتے مقرر ہیں، اللہ جو انہیں حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں، وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت اور ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی اور ذمہ دار ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے، اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ خادم اپنے مالک کے مال کا راعی اور ذمہ در ہے، اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ خبردار! تم میں سے ہر شخص راعی اور ذمہ دار ہے اور اپنی رعیت اور ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاري،کتاب الاستقراض واداءالدیون والحجر،باب العبد راع في مال سیده،حدیث:2278وصحیح مسلم،کتاب الامارة،باب فضیلة الامام العادل وعقوبة الجائز،حدیث:1829وسنن ابي داؤد،کتاب الخراج والفيءوالامارة،باب مایلزم الامام من حق الراعية،حدیث:2928۔)
سنن ابی داؤد میں جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
’’بچے سات سال کے ہوں تو انہیں نماز کا حکم دو۔ (اگر نہ پڑھیں اور) دس سال کے ہو جائیں تو انہیں سزا دو اور انہیں بستروں میں الگ الگ کر دو۔‘‘ (سنن ابي داود، کتاب الطهارة، باب متي یومر الغلام بالصلاة،حدیث:495مسند احمد بن حنبل:180/2،حدیث:6689۔)
الغرض عورت کے ذمے ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں محنت کرے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی وقت اچانک لائن میں کھڑا کر کے حاضری لگانی شروع کر دے (بلکہ یہ ایک ہمہ وقتی اور مسلسل عمل ہے)۔ کہا جاتا ہے کہ راعی اور ذمہ دار کو محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں اپنی اولاد کی طرف سے نقصان نہ اٹھا بیٹھے۔
میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں بلکہ خود بھی اس کا محتاج ہوں۔ اگر تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ علم حاصل کریں گی اور دین میں فہم پیدا کریں گی اور دعوت کا کام بھی سر انجام دیں گی، تو یہ سب حسب استطاعت ہی ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورةالبقرة
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی ہمت سے زیادہ کا مکلف نہیں ٹھہراتا ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب