سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1111) قہوہ خانہ میں شراکت اختیار کرنا

  • 18718
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 936

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے شوہر کی ایک قہوہ خانہ میں شراکت ہے، جسے لوگ کیفے ٹیریا بھی کہتے ہیں۔ میں اسے کہتی ہوں کہ یہ مال حرام ہے۔ تو کیا فی الواقع یہ حرام ہے یا حلال؟ اور حلال کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خیال رہے کہ قہوہ خانہ میں مشروبات پیش کیے جاتے ہیں مثلا قہوہ، چائے، اور دیگر مشروبات وغیرہ، لیکن ساتھ ساتھ کچھ اور چیزیں بھی پیش کی جاتی ہیں مثلا حقہ جو حرام ہے۔ اور اس بارے میں عام فتویٰ مساجد کے دروازوں پر بھی آویزاں کیا گیا ہے کہ سگریٹ نوشی اور حقہ نوشی انتہائی نقصان دہ ہیں۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: (لا ضرر ولا ضرار) ’’نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصان دینا ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل:1؍313،حدیث:2867والمستدرک للحاکم:2؍66،حدیث:2345وسنن الدارقطني:3؍77،حدیث:288۔)

علاوہ ازیں ممنوعہ لہو و لعب کی کچھ اور چیزیں بھی ان جگہوں پر مہیا کی جاتی ہیں جیسے کہ کیرم بورڈ اور چوسر (لُڈو کی انداز کی چیز) ([1]) اور ’’نرد‘‘ یعنی چوسر حرام ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ، فَكَأنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ "

’’جس نے نرد شیر (چوسر) کھیلا اس نے گویا اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون سے رنگ لیا۔‘‘

یہ چیزیں مسلمان کے لیے حرام ہیں کہ نجس چیزوں سے آلودہ ہو، سوائے اس کے کہ کہیں خاص ضرورت ہو۔ تو حسب ضرورت شدیدہ یہ ممنوعہ چیزیں کسی قدر مباح کہی جا سکتی ہیں۔ (الضرورات تبيع المظورات) (المنثور فی القواعد للزرکشي:2؍317الموافقات فی اصول الفقہ للشاطبي:4؍145۔) مسند احمد اور ابوداؤد میں سیدنا ابو موسیٰ شعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ)

’’جس نے چوسر کھیلی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔‘‘ (سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی النھی عن اللعب والنرد،حدیث:4938سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب اللعب بالنرد،حدیث:3762مسند احمد بن حنبل:4؍394،حدیث:19539)

الغرض قہوہ خانہ میں مشروبات کے ساتھ جو ناجائز چیزیں پیش کی جاتی ہیں تو اس وجہ سے حلال، حرام کے ساتھ خلط ہو جاتا ہے۔ حلال چیزوں کی جو قیمت وصول کی جاتی ہے وہ حلال ہے، اور حرام چیزوں کی قیمت حراام ہے۔ اس سائلہ کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے مال میں سے اس نیت سے کھائے کہ وہ حلال میں سے کھا رہی ہے۔


[1] حدیث’’نردشیر‘‘کا ترجمہ چوسر کیا جاتا ہے۔یہ ایک فارسی کھیل تھا۔ایک ڈبیا میں کنکریاں یاپلاسٹک کی گوٹیاں ہوتی ہیں اور دونگ ہوتے ہیں،جنھیں ہلا کر جیسانگ نکل آتا ہے اس کے مطابق کنکریاں یاگوٹیاں آگے بڑھائی جاتی ہیں۔اس طرح کے کھیلوں میں وقت کا ضیاع اور شرط لگتی ہے،اس وجہ سے ناجائز ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو امید ہے مباح ہوں گی۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 777

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ