سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1105) حمل و ولادت کے مسائل میں مرد ڈاکٹر کے پاس جانا

  • 18712
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 735

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خواتین کے نسوانی امراض حمل و ولادت کے مسائل میں مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانا جائز ہے جبکہ کوئی مشکل اور الجھن والی بات نہ ہو؟ اور جو جاتے ہیں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ لیڈی ڈاکٹرز، مردوں کے مقابلے میں اتنی ماہر نہیں ہوتیں اور دوسرے یہ کہ ضرورت کے تحت یہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی دلیل کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ ہمارے ہاں بڑی معروف اور تجربہ کار لیڈی ڈاکٹر موجود ہیں، بلکہ مرد ڈاکٹر بھی ان کی مہارت کے معترف ہیں اور میں کئی ایک کے نام شمار کر سکتا ہوں۔

اور دوسری دلیل، میں نے اس سے پہلے اس طرح کا کوئی فتویٰ نہیں سنا ہے، اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ عورتوں نے اپنی طرف سے اسے جائز بنا لیا ہو گا۔ اور اگر ضروری ہو تو پہلے یقین کر لینا ضروری ہے کہ قرب و جوار میں کوئی مسلمان لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ پھر غیر مسلم لیڈی ڈاکٹر کا نمبر ہے، پھر اس کے بعد مسلمان مرد ڈاکٹر کا نمبر ہے، اور چاہئے کہ وہ قابل اعتماد ہو۔ اور پھر یہ بھی حلال نہیں ہے کہ اس مرد ڈاکٹر اور خاتون کے مابین کسی طرح کی کوئی خلوت ہو۔ اور کپڑا اتارنے میں بھی صرف اس قدر اتارا جائے جس کی لازمی ضرورت ہو۔ تو کیا ہماری بہنیں یہ سب شرائط و ضوابط جانتی ہیں؟

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 774

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ