سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1090) ٹیلی ویژن یا رسائل پر عورتوں کو دیکھنا

  • 18697
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 726

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ان لوگوں کا کیا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ ٹیلی ویژن یا رسائل وغیرہ میں عورت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حبشیوں کو دیکھا کرتی تھیں، جبکہ وہ مسجد میں اپنے کرتبوں کا اظہار کرتے تھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورت کی تصویر دیکھنا جائز ہے۔ بقول ان کے تصویر محض ایک خیال ہے، جبکہ فرد اور شخصیت کی طرف دیکھنا ہی حقیقی دیکھنا ہے۔ مگر یہ سد ذرائع سے غفلت والی بات ہے۔ بھلا ایک عورت کو ٹیلی ویژن یا مجلے یا حقیقتا اسے دیکھنے میں کیا فرق ہے؟ فقہائے کرام نے تصویر دیکھنے کو حرام کیوں کہا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے۔ بلکہ یہ اندیشہ موجود ہے، خواہ عورت کی تصویر دیکھی جائے یا خود اس کی شخصیت کو دیکھا جائے۔

اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حبشیوں کو دیکھنا ([1]) تو یہ ایک کام تھا اور اس کا دیکھنا انہیں اور دوسروں سب کے لیے جائز تھا۔ کیونکہ اس میں نظر ان افراد کی طرف نہیں بلکہ ان کے کھیل اور کرتب کی طرف تھی۔ جیسے کوئی عورت کسی معرکہ قتال کا منظر دیکھے تو اس موقعہ پر کسی عورت کے دل میں یہ خیال تک نہ آئے گا جو عام حالات میں شیطان دل میں ڈال دیتا ہے کہ ٹکٹکی باندھ کر کسی خاص مرد کو دیکھے۔ اسی لیے وہاں اجازت دی گئی تھی، کیونکہ فتنے کا کوئی ڈر نہ تھا۔ اور اس طرح یہ حدیث اس آیت کریمہ کے کسی طرح خلاف نہیں ہے، فرمای:

﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم... ﴿٣٠﴾...﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور

’’اہل ایمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں جھکا کے رکھا کریں اور اپنی عصمتوں کی حفظت کریں ۔۔۔ اور اہل ایمان خواتین سے کہئے کہ اپنی نظریں جھکا کے رکھا کریں اور اپنی عصمتوں کی حفاظت کریں۔‘‘

اس حدیث میں دیکھنا ایک مقصد کی طرف ہے۔ تو جب دیکھنا کسی خاص مقصد کا ہو تو جائز ہے اور آیت کریمہ میں بھی یہی ہے۔ اس میں عام دیکھنے کی نہی نہیں ہے۔

آپ علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَالا ولى لك وَالثَّانِيَةُ عَلَيْكَ

’’پہلی نظر کے پیچھے دوسری نظر مت لگا، پہلی تو تیرے لیے (معاف) ہے اور دوسری تجھ پر (وبال) ہے۔‘‘

یعنی جب انسان کسی عورت کو بحیثیت عورت دیکھے گا تو یہ شیطان کی طرف سے ہو گا۔

صحیح بخاری میں ایک خثعمی خاتون کی حدیث ہے جب وہ اپنے والد کے متعلق پوچھنے کے لیے کھڑی ہوئی، کہ باپ کو فریضہ حج نے آ لیا ہے اور وہ بڑی عمر کا ہے، مگر سواری پر ٹک نہیں سکتا، تو اس نے پوچھا: کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: "تو اس کی طرف سے حج کر لے۔" اور نبی علیہ السلام کے ساتھ سواری پر پیچھے جناب فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، وہ اس کی طرف اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔ اور نبی علیہ السلام فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے کہ کہیں شیطان ان دونوں کے درمیان داخل نہ ہو جائے۔

اس لیے عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ مرد کو بار بار دیکھے، جیسے کہ مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ عورت کو بار بار دیکھے۔ مگر سوائے  ایک صورت کے کہ وہ اسے نکاح کا پیغام دینا چاہتا ہو۔


[1] یہ روایت مندرجہ ذیل مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے:صحیح بخاری،کتاب المساجد،باب اصحاب الحراب فی المسجد،حدیث:443صحیح مسلم،کتاب صلاۃ العیدین،باب الرخصۃ فی اللعب الذی لامعصیۃ فیہ،حدیث:892سنن النسائی،کتاب العیدین،باب اللعب فی المسجد یوم العید ونظر النساء الی ذلک،حدیث:1595۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 765

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ