سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1085) اجنبی عورت کے جسم کے کسی حصے کو چُھونا

  • 18692
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 631

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ اجنبی عورت کے کسی حصے کو چھوئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض کمزور ایمان عورتیں زرگروں وغیرہ کے سامنے اپنے ہاتھ ظاہر کرنے سے پرہیز نہیں کرتی ہیں، کہ وہ چوڑی یا انگوٹھی وغیرہ کا سائز اور حجم لے لے۔ یا وہ مرد عورتوں کے ہاتھوں سے زیور اتارنے یا پہنانے کے بہانے ان کے ہاتھ اور بازو چھوتے ہیں (اور یہ بھی اپنے ہاتھ پیش کر دیتی ہیں)۔ یہ سب حرام کام ہیں۔ مرد کے لیے قطعا جائز نہیں ہے کہ اجنبی عورت کے جسم کو ہاتھ لگائے۔ اور اسی طرح یہ عورت بھی اللہ اوراس کے رسول کی نافرمان بنتی ہے۔ ان میں ہر ایک کو اس سے توبہ کرنی چاہئے۔ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَهُ

’’تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کوئی سوئی چبھو دی جائے، یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:211/20،حدیث:486۔)

اگر عورت اس عمل میں اس مرد کے ساتھ معاون ہے تو وہ بھی اس کے گناہ میں برابر کی شریک اور حصہ دار ہے۔ محض آنکھ سے دیکھ لینے کے مقابلے میں جسم کا جسم سے مس ہونا بہت زیادہ لذت کا باعث ہوتا ہے، اس سے صنفی جذبات بہت زیادہ بیدار ہوتے ہیں۔ اور اسلام کا کسی اجنبیہ کے جسم کو چھونا حرام قرار دینا، ان حفاظتی تدابیر میں سے ہے جن کے ذریعے سے افراداور معاشرہ فتنہ و فساد اور فحش کاری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔یہ وہ خرابیاں ہیں جو افرادکی عفت و پاک دامنی اور طہارت کو تار تار کر دیتی ہیں، اور نہ ہلاکت ان کا لازمی انجام ہوا کرتا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 762

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ