سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1080) طالب علم لڑکے کا کلاس فیلو لڑکی سے مصافحہ کرنا

  • 18687
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 719

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

طالب علم لڑکے کا اپنی جماعت (کلاس فیلو) لڑکی سے مصافحہ کا کیا حکم ہے؟ اگر لڑکی ہی سلام اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے مل جل کر ایک ہی جگہ پڑحنا، خواہ سکول میں ہو یا کسی اور جگہ، یا ان کی کرسیاں ساتھ ساتھ ہوں، جائز نہیں ہے، اس میں بہت بڑا فتنہ ہے۔ لڑکے لڑکیوں کا یہ اشتراک و اختلاط جائز نہیں ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا بھی جائز نہیں ہے، خواہ اس میں لڑکی ہی پیش قدمی کرے۔ لڑکے کو چاہئے کہ اسے متنبہ کر دے کہ اجنبی مردوں سے ہاتھ ملانا جائز نہیں ہے۔

نبی علیہ السلام سے ثابت ہے کہ جب عورتیں آپ سے بیعت ہوتیں تو آپ کہتے کہ:

’’میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔‘‘ (سنن النسائی،کتاب البیعۃ،باب بیعۃ النساء،حدیث:4181،سنن ابن ماجہ،کتاب الجھاد،باب بیعة النساء،حدیث:2874ومسند احمد بن حنبل:353/6،حدیث:27051۔)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:

’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ آپ ان عورتوں سے زبانی بیعت لیتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الطلاق،باب اذااسلمت المشرکة۔۔۔۔۔،حدیث:4983،وصحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب کیفیۃ بیعۃ النساء،حدیث:1866وسنن ابن ماجہ،کتاب الجھاد،باب بیعۃ النساء،حدیث:2875۔)

اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے لیے بہترین نمونہ بنایا ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾... سورةالاحزاب

’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ موجود ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔‘‘

عورتوں کا غیر محرموں سے مصافحہ کرنا، دونوں جانب فتنے کا باعث ہے، لہذا اس کا چھوڑنا واجب ہے۔ اور شرعی و مسنون سلام جو بغیر مصافحہ کے ہو، اس میں کسی شبہ اور فتنے کی بات نہیں ہے، بشرطیکہ لڑکی باحجاب ہو، خلوت میں نہ ہوں، بات کرنے میں لوچ اور لہک نہ ہو۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾... سورةالاحزاب

’’اے نبی کی بیویو! تم دوسری عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ والی ہو تو بات کرنے میں لوچ نہ دکھاؤ ورنہ جس کے دل میں کوئی روگ ہوا وہ کوئی طمع کر بیٹھے گا، اور بھلی بات کہو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عورتیں آپ کو سلام کہتی تھیں، اپنے مسائل آپ سے دریافت کرتی تھیں۔ اسی طرح بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی پوچھا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں عورت کا اپنے محرم مردوں سے مصافحہ مثلا باپ،بھائی اور چچا وغیرہ سے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 759

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ