سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1069) پارچہ فروش کے ساتھ عورت کا بات کرنا

  • 18676
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 617

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کا پارچہ فروش کے ساتھ باتیں کرنا کیسا ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ اس بارے میں خواتین کے لیے عمومی گفتگو کرنے کے راہنما اصول واضح کیے جائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی عورت کا دکاندار وغیرہ کے ساتھ گفتگو کرنا اگر بقدر ضرورت ہو جس میں کوئی فتنے والی بات نہ ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خیر القرون میں عورتیں اپنی ضروریات اور مختلف امور میں جن میں کوئی فتنہ نہ ہوتا تھا، حسب ضرورت باتیں کیا کرتی تھیں۔ لیکن اگر اس گفتگو میں ہنسی مذاق، آزاد منشی اور بولنے کا انداز فتنہ پرور ہو تو ناجائز اور حرام ہے۔ اللہ عزوجل کا نبی عیہ السلام کی ازواج کے لیے فرمان ہے:

﴿ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾... سورةالاحزاب

’’نرم لہجے سے بات نہ کرو، ورنہ جس کے دل میں کوئی روگ ہو گا وہ کوئی خیال کر بیٹھے گا۔ ہاں قاعدے کے مطابق بات کرو۔‘‘

اور ’’قول معروف‘‘ سے مراد یہی ہے کہ جسے لوگ درست سمجھتے اور درست قرار دیتے ہیں کہ حسب ضرورت ہو۔ لیکن اگر ضرورت سے زیادہ ہو مثلا چہرہ ننگا کرنا یا بازو اور ہاتھ نمایاں کرنا تو یہ سب ناجائز اور حرام کام ہوں گے جو فتنے اور فحش میں پڑنے کا سبب ہو سکتے ہیں۔

الغرض مسلمان خاتون، جو اللہ سے ڈرنے والی ہے، پر واجب ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اجنبی لوگوں سے ایسی بات چیت نہ کرے جو ان کے لیے کسی طمع یا فتنے کا باعث ہو، اور جب کبھی اسے کسی دکان پر یا کسی ایسی جگہ جانا بھی پڑے جہاں مرد ہوں، تو چاہئے کہ باوقار ہو کر جائے اور اسلامی و شرعی آداب کا اہتمام رکھے اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے بھلا انداز اپنائے جس میں کوئی شبہ یا فتنہ نہ ہو۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 750

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ