سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1059) شريعت کی رو سے عورت کا کام کرنا

  • 18666
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1043

سوال

(1059) شريعت کی رو سے عورت کا کام کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شریعت اسلامی کی رُو سے عورت کے کام کرنے کی کیا حیثیت ہے، جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورت اپنے خاص لباس میں سڑکوں اور بازاروں میں نکلتی ہے، سکول کالج جاتی ہے۔ اسی طرح دیہاتی عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں شک نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے، اس کی حفاظت کی ہے، انسانی بھیڑوں سے اسے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے، اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور اسے معاشرے میں بلند مقام دیتے ہوئے مردوں کے ساتھ وراثت میں برابر کا حقدار اور حصہ دار بنایا ہے۔ جاہلیت میں جو اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، اسلام نے اس عمل کو حرام قرار دیا ہے اور نکاح شادی کے معاملات میں اس سے اجازت اور مشورہ کرنا لازم قرار دیا ہے۔ اور اگر عورت سمجھ دار اور دانا ہو تو اسے مالی تصرفات کی بھی اجازت دی ہے، اور اس کے شوہر پر اس کے بہت سے حقوق واجب ٹھہرائے ہیں اور اس کے باپ اور دیگر رشتہ داروں پر واجب کیا ہے کہ حسب ضرورت اس پر خرچ اخراجات کریں، اور خود عورت پر واجب کیا ہے کہ ہر ایک کی لذت اندوزی کا سستا سودا نہ بنے بلکہ ان کی نظروں سے بچاؤ کے لیے پردہ اختیار کرے۔ سورۃ الاحزاب میں ہے:

﴿وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ ذ‌ٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ ... ﴿٥٣﴾... سورةالاحزاب

’’اور جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کیا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی زیادہ پاکیزگی کا باعث ہو گا۔‘‘

اور سورۃ النور میں فرمایا:

﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ذ‌ٰلِكَ أَزكىٰ لَهُم إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما يَصنَعونَ ﴿٣٠ وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخو‌ٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَو‌ٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ أُولِى الإِربَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَروا عَلىٰ عَور‌ٰتِ النِّساءِ وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورة النور

’’مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔ اور مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے، اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مارے رہیں، اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے والد کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے لڑکوں کے، یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے، یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلو نہیں۔ اور اسی طرح زر زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے۔ اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پا جاؤ۔‘‘

اس آیت کریمہ میں وارد الفاظ (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا) ’’اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے‘‘ کی تفسیر میں جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سے مراد ظاہری کپڑے ہیں، کیونکہ ان کا چھپانا ممکن نہیں ہے۔ جبکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مشہور قول یہ ہے کہ اس سے مراد ’’چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر:3/378،تحت آیت وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ (النور:31))

ان میں سے راجح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کیونکہ اس سے پہلے حجاب والی آیت دلیل ہے کہ ہاتھ اور چہرے کا چھپانا واجب ہے، کیونکہ یہ اعضاء ہی زینت میں سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں، لہذا ان کا چھپانا بہت ضروری ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "چہرے اور ہاتھوں کا نمایاں رکھنا اول اسلام میں تھا، مگر آیت حجاب کے نازل ہونے سے ان کا چھپانا بھی واجب ٹھہرا، کیونکہ غیر محرم کے سامنے ان کا نمایاں رکھنا بہت بڑے فتنے کا سبب ہو سکتا ہے، نیز ان کا ننگا رکھنا دیگر اعضاء کے عریاں کرنے کا بھی سبب ہو سکتا ہے، اور بالخصوص جب آنکھٰن سرمے اور ہاتھ مہندی وغیرہ سے مزین ہوں تو ان کا کھلا رکھنا بالاجماع حرام ہے۔ اور جو کام اب عورتوں نے شروع کر دیا ہے کہ سر، گردن، سینہ، کلائیاں، پنڈلیاں حتیٰ کہ رانیں تک ظاہر کرنے لگی ہیں یہ بدترین برائی ہے اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ جس میں ذرا بھر بھی بصیرت ہو وہ اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں کر سکتا۔ یہ ایک عظیم فتنہ ہے اور اس کے نتائج انتہائی برے ہیں۔ ہم اللہ عزوجل سے دعاگو ہیں کہ مسلمانوں کے اس فتنے کی سرکوبی اور اسے ختم کرنے کی توفیق دے اور عورت کو بھی توفیق دے کہ حجاب کی طرف لوٹ آئے جو اللہ نے اس پر فرض کیا ہے اور اسباب فتنہ سے محفوظ رہے۔

اس مسئلہ میں اللہ عزوجل کا یہ فرمان بھی ہے:

﴿وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ ... ﴿٣٣﴾...سورة الاحزاب

’’اور اے عورتو! اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور سابقہ جاہلیت کے سے انداز میں اپنی زینت کا اظہار نہ کرتی پھرو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَالقَو‌ٰعِدُ مِنَ النِّساءِ الّـٰتى لا يَرجونَ نِكاحًا فَلَيسَ عَلَيهِنَّ جُناحٌ أَن يَضَعنَ ثِيابَهُنَّ غَيرَ مُتَبَرِّجـٰتٍ بِزينَةٍ وَأَن يَستَعفِفنَ خَيرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٦٠﴾... سورةالنور

’’اور بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید اور خواہش ہی نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ وہ اپنا بناو سنگار ظاہر کرنے والی نہ ہوں، تاہم اگر اس سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لیے بہت افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب سنتا اور جانتا ہے۔‘‘

پہلی آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے خواتین کو پابند بنایا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں، کیونکہ عورتوں  کا اپنے گھروں سے بلا ضرورت باہر نکلنا بالعموم فتنے کا سبب ہے۔ تاہم شرعی دلائل کی رُو سے ضرورت ہو تو انہیں نکلنا جائز بھی ہے مگر پردے کے ساتھ اور بغیر زیب و زینت کے۔ تاہم ان کا اپنے گھروں میں رہنا ہی اصل اور ان کے حق میں بہتر اور فتنے سے بعید تر ہے۔ پھر انہیں جاہلیت کے سے سنگار اور اس کے اظہار سے منع فرمایا ہے۔ اور دوسری آیت کریمہ بڑی بوڑھیوں کو جنہیں نکاح وغیرہ کی خواہش نہیں ہوتی، اجازت دی ہے کہ پردہ نہ کریں تو کوئی حرج کی بات نہیں، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ بھی اپنی زینت کو ظاہر کرنے والی نہ ہوں۔ اگر بوڑھیاں زیب و زینت اور سنگار اختیار کریں تو انہیں بھی پردے کی پابندی کرنا ہو گی حالانکہ وہ بالعموم فتنے کا باعث نہیں ہوتی ہیں اور ان کی طرف کوئی رغبت یا توجہ نہیں کی جاتی ہے۔ جب بوڑھیوں کا یہ حکم ہے تو الھڑ دوشیزاؤں کا کیا حکم ہو گا۔ پھر اللہ عزوجل نے بیان فرمایا ہے کہ ان بڑی بوڑھیوں کا بے پردگی سے احتراز کرنا ان کے حق میں بہت بہتر ہے خواہ وہ اپنی زینت کا اظہار نہ بھی کریں۔ تو یہ سب دلائل اپنے معنی اور مفہوم میں واضح ہیں کہ عورتوں کو باپردہ رہنے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ کہ عریانی، بے پردگی اور اسباب فتنہ سے دور رہیں۔ اور مدد اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کھیتوں میں یا کارخانے اور گھر میں کام کرنا، تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اور اسی طرح وہ اپنے محرم عزیزوں کے ساتھ مل کر بھی کام کر سکتی ہے بشرطیکہ ان کے ساتھ اور کوئی اجنبی نہ ہو۔ اور ایسے ہی وہ عورتوں کی معیت میں بھی کام کرے تو کوئی حرج نہیں۔ ناجائز صرف اس صورت میں ہے جب وہ غیر محرم مردوں کے ساتھ مل کر کام کرے، کیونکہ اس کا نتیجہ بہت بڑے فساد اور کسی عظیم فتنے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس دوران میں ان کی آپس میں خلوت اور علیحدگی ہو سکتی ہے، اور وہ اس عورت کے محاسن وغیرہ دیکھ سکتے ہیں۔

جب کہ شریعت اسلامیہ کا ہدف ہے کہ بنی آدم کو مصالح حاصل ہوں اور ان کی تکمیل ہو، مفاسد دور اور ان میں کمی ہو اور ایسے تمام راستے اور ذرائع بند کر دیے جائیں جو اللہ کی حرمتوں کی پامالی تک پہنچاتے ہوں۔ اور دنیا و آخرت میں سعادت، عزت ، کرامت اور نجات کی ایک ہی راہ ہے کہ شریعت اسلامیہ اور اس کے احکام کی پابندی کی جائے اور ایسے تمام امور سے احتراز کیا جائے جن میں اس کی مخالفت ہوتی ہو، اور لوگوں کو بھی اسی راہ کی دعوت دی جائے اور اس راہ کی مشکلات پر صبر سے کام لیا جائے۔

اللہ عزوجل ہمیں اور آپ سب کو بلکہ تمام بھائیوں کو ان کاموں کی توفیق عنایت فرمائے جس میں اس کی رضا ہے اور ایسے تمام کاموں سے بچائے رکھے جو فتنوں اور گمراہیوں کا سبب ہیں بلاشبہ وہ بڑا ہی سخی اور عطا کرنے والا ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 741

محدث فتویٰ

تبصرے