السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہت سے دکاندار مستعمل سونا خریدتے ہیں، اور پھر وہ سونے کے بیوپاری سے اس کے بدلے نیا بنا ہوا زیور خریدتے ہیں جو اس کے ہم وزن ہوتا ہے، اور وہ لوگ اس نئے کی بنوائی علیحدہ سے لیتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والتمر بالتمر والعشير بالعشير والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد، (مسلم عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه
’’سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، جو جو کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے مثل بالمثل، برابر برار اور ہاتھوں ہاتھ نقد ہونا چاہئے۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ،باب الصرف وبیع الذھب بالورق نقدا،حدیث:1587وسنن الترمذی،کتاب البیوع،باب ان الحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل۔۔۔۔۔،حدیث:1240۔یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔بہرحال فتویٰ میں مذکور الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔نیزدیکھئے:سابقہ حوالہ۔(عاصم))
اور یہ بھی ثابت ہے کہ:
(من زاد او استزاد فقد اربى) (صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ،باب الصرف وبیع الذھب بالورق نقدا،حدیث:1587وسنن الترمذی،کتاب البیوع،باب ان الحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل۔۔۔۔۔،حدیث:1240)
’’جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا، اس نے سود کا معاملہ کیا۔‘‘
احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کے پاس عمدہ کھجور لائی گئی تو آپ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ: "ہم اس کے ایک صاع کے بدلے دو صاع کھجور دیتے ہیں یا تین صاع۔" تب آپ نے حکم دیا کہ یہ سودا واپس کیا جائے اور فرمایا: "یہ عین سود ہے۔" اور پھر ارشاد فرمایا کہ "گھٹیا کھجور دراہم (روپوں) میں فروخت کریں، پھر ان سے نئی کھجور خریدیں۔" (صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب اذاارادبیع بتمر خیر منہ،حدیث:2201وصحیح مسلم،کتاب المساقاۃ،باب بیع الطعام مثلا بمثل،حدیث:1593وسنن النسائی،کتاب البیوع،باب بیع التمر بالتمر متفاضلا،حدیث:4553۔)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ سونے کو سونے سے تبدیل کرنا اور پھر اس پر بنوائی کی اضافی اجرت لینا، یہ حرام اور ناجائز ہے اوراس ممنوعہ سود میں داخل ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
اس میں درست طریقہ یہ ہے کہ مستعمل اور مکسور علیحدہ سے بیچا جائے، پہلے سے کوئی پروگرام طے نہ کیا گیا ہو۔ جب اس کا مالک اپنی رقم وصول کر لے تب یہ نئی چیز خرید کرے اور اس سے بھی افضل یہ ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ چیز کسی اور دکان سے تلاش کرے۔ اگر کہیں اور نہ ملے تب پہلے دکاندار کے پاس آ کر مطلوبہ چیز خرید لے۔ اب اگر دکاندار مزید بھی لیتا ہے تو جائز ہے۔ الغرض سونے کا تبادلہ سونے کے ساتھ، فرق کی قیمت ادا کر کے نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بنوائی کی اجرت ہے۔ یہ سونے کے تاجر کی بات ہے۔ اور اگر وہ زیورات تیار کرنے والا سنار ہو تو اسے چاہئے کہ کہے کہ یہ لو میرا سونا، اس سے مجھے میرا مطلوبہ زیور بنا دو، میں تمہیں اس کی محبت اور بنوائی دوں گا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب