السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب انسان کسی سنار کو اپنا زیور بیچے اور اس سے دوسرا خریدے جو پہلے سے قیمت میں زائد ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے کہ:
الذهب بالذهب مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد، (عن عبادة بن الصامت رضى الله عنه)
"سونا سونے کے بدلے ہم مثل، برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہونا چاہئے۔‘‘
اگر آپ اپنا سونا مثلا اٹھارہ قیراط کا بیچتے ہیں اور اس کے بدلے میں چوبیس قیراط لیتے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ دونوں آپس میں وزن میں برابر ہوں اور خریدار اور بائع الگ ہونے سے پہلے اپنا اپنا مال ایک دوسرے سے وصول کر لیں۔ اگر آپ سنار کو اپنا سونا بیچتی اور اس سے دوسرا اس سے خریدتی ہیں، یا تو یہ ان میں مسابقہ ہو گا کہ میں تجھے دس ہزار کا اپنا سونا بیچوں گی اور اس قیمت میں تجھ سے خریدوں گی تو یہ زیور وزن میں کم ہو گا۔ اگر یہ سودا باقاعدہ اتفاق سے کیا گیا ہو تو جائز نہیں ہو گا۔ یہ حرام ہے اگرچہ شکل و صورت میں خریدوفروخت کی ہے۔ اگر یہ سودا باقاعدہ شدہ پروگرام کے تحت نہ ہو بلکہ وہ آئے، اپنا سونا بیچے اور اپنی رقم وصول کر لے۔ اب وہ دوسرا سودا کرتے ہوئے کچھ اور زیور خریدے تو یہ جائز ہو گا۔
امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ اسے چاہئے کہ یہ اپنا سونا بیچنے کے بعد بازار میں کہیں اور جائے اور اپنے مطلب کی چیز خرید لے۔ اگر کہیں اور نہ ملے تو دوبارہ واپس آ کر اسی سے خرید لے۔ یقینا امام احمد رحمہ اللہ کی بات قابل قدر ہے تاکہ یہ عمل حرام کا حیلہ نہ بنے اور دوسروں کے لیے راہ نہ کھلے۔ اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی مطلوبہ چیز بازار میں تلاش کرے۔ اگر نہ ملے تو پھر آ کر اس سے لے لے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب