السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش ہے کہ تصویر کا حکم بیان فرمائیں جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں یا کیمرے سے۔ اسی طرح انہیں دیواروں پر لٹکانا یا بطور یاد گیری اپنے پاس محفوظ رکھنا کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين
تصویر جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہے حرام ہے بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویریں بنانے والوں پر لعنت کی ہے۔ اور لعنت ہمیشہ کسی بڑے گناہ ہی پر ہوتی ہے۔ اور تصویر بنانے والے نے خواہ اپنے فن میں مہارت کے اظہار کے لیے بنائی ہو یا طالب علموں کی وضاحت کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے، یہ سب حرام ہے۔ لیکن اگ ر اجزائے بدن کی تصویر بنائے جیسے کہ صرف ہاتھ یا صرف سر وغیرہ تو اس میں کوئی نہیں۔
البتہ کیمرے کی تصویر، جس میں ہاتھ کی کوئی خاص حرکت نہیں ہوتی، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ’’تصویر‘‘ میں داخل نہیں ہے۔ ([1])
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیمرے سے یہ تصویر کس مقصد کے لیے لی گئی ہے۔ اگر مقصد حرام ہو تو یہ تصویر لینا بھی حرام ہو گا، کیونکہ وسائل کا حکم مقاصد کے ساتھ ہے۔ اور تصویر صرف یاد گیری کے طور پر سنبھال سنبھال کے رکھنا حرام ہے۔ کیونکہ نبی علیہ السلام نے بتایا ہے کہ ’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں تصویر ہو۔‘‘ (صحیح نخاری،کتاب بدءالخلق،باب اذاقال احدکم آمین والملائکۃفی السماء،حدیث:3054وصحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم تصویر صورۃالحیوان،حدیث:2106وسنن النسائی،کتاب الطہارۃ،باب فی الجنب اذالم یتوضا،حدیث:261۔) یہ حدیث دلیل ہے کہ گھروں (دکانوں وغیرہ) میں تصویر رکھنا حرام ہے، اور یہی حکم ان کے دیواروں پر لٹکانے کا ہے۔
[1] راقم مترجم سمجھتا ہے کہ کہیں اس فتویٰ کی تحریر میں کوئی تحریف نہ ہو گئی ہو۔واللہ اعلم۔بہرحال اس میں بہت بڑا تسامح ہے۔ہم انتہائی ادب واحترام کے ساتھ،ان بزرگوں سے جو کیمرے کی تصویر کو جائز کہہ دیتے ہیں،پوچھ سکتے ہیں کہ"لغت،عرف عوام اور شریعت میں اس چیز کا نام کیا ہے؟ظاہر ہے کہ تصویر کے علاوہ اس کا اور کوئی نام نہیں۔اگر یہ تصیر ہی نہیں تو پھر اسے بطور یادگار اپنے پاس رکھنا یا دیواروں پر لٹکانا کیوں ناجائز ہے؟جبکہ آپ اسے"تصویر"ہی کے مفہوم سے خارج کررہے ہیں۔نیز یہ کہنا کہ"اس میں ہاتھ کا عمل دخل نہیں"یہ بات محض وہم ہے۔کیمرے میں ہاتھ کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ہاتھ ہی اسے سیٹ کرتا ہے۔ہاتھ اور نظر ہی سے اس کا رخ متعین ہوتا ہے۔ہاتھ ہی بٹن دبا کر کیمرے کا عمل شروع کرتا ہے۔ہاتھ ہی اس کے جاری عمل کو بند کرتا ہے۔اور ہاتھ ہی اس میں فلم ڈالتا اور پھر اس کا حاصل باہر نکالتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ کارروائی دنوں اور گھنٹوں میں ہوتی تھی،اور اب دور جدید کی ترقی اور مشینوں نے اسے منٹوں اور سیکنڈوں میں کردیا ہے۔
تصویر کا موجودہ بلوائے عام کہ شناختی کارڈ،پاسپورٹ،کرنسی اور دیگر دستاویزات میں اس کی اہمیت اور ضرورت بہت زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ تو اس سے یہ حلال نہیں بن جاتی ہے۔صرف اضطراری اور مجبوری کی کیفیت میں اس کا بنوانا،حاصل کرنا اور محفوظ رکھنے کی رخصت ہے'لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا'اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ استغفار کرنا چاہیے اور حتی الامکان احتراز بھی،اور اصحاب حل وعقد کو اس مسئلے کی شرعی حیثیت واضح کرنی چاہیے۔اور دل سے ان اعمال کو انتہائی مبغوض اور مکروہ جاننا واجب ہے۔اوربغیر معقول وجہ کے تصویروں کو اپنے پاس سنبھال کررکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔اس نیت کے ساتھ ان شاءاللہ بندے کا یہ گناہ معاف کردیا جائے گا۔لیکن اگر دل میں اس کے متعلق کوئی نرم گوشہ ہوا تو آدمی ان لوگوں کے ساتھ شریک گناہ ہوگا جنہوں نے اسے مسلمانوں پر مسلط کیا ہے۔ونسال اللہ العافیۃ۔
اور وہ اسباب ومقاصد جن کے لیے تصاویر کو ناگزیر سمجھا جانے لگا ہے،وہ پہلے بھی تھے مگر مسلموں اور غیر مسلموں سب نے ان ضروریات کا حل تصویر کے علاوہ میں تلاش کیا ہوا تھا۔بلکہ اب بھی ان ہی ذرائع کے استعمال کو زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔میرااشارہ ہے فنگر پرنٹس کی طرف یعنی انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات۔یہ نشانات علامتی مقاصد کے لیے انتہائی باعتماد اور کام یاب ہیں،جبکہ تصویر بسااوقات ناکام ثابت ہوتی ہے۔چونکہ بے خدا تعلیم نے اللہ کی حدود کی پاسداری کو بے قیمت بنانے میں بڑاکرداراداکیاہےاورتصویروں میں کشش پیدا کردی ہے،تو ہمارے بعض اصحاب علم ان کی کثرت سے متاثر ہوکر اس کو حلال بنانے کے درپے ہوگئے ہیں جو قطعاً درست نہیں ہے۔الغرض تصویر جان داراشیاء کی شریعت نے حرام ٹھہرائی ہے اور بہرصورت حرام ہے۔البتہ بعض صورتوں میں ان کا مواخذہ نہیں ہے مثلاً جب ان کی اہانت ہوتی ہے۔واللہ اعلم وعلمہ اتم۔کتبہ عمر فاروق السعیدی فضیلۃالشیخ کا ایک اور فتویٰ اس بارے میں"حرام لباس"کے باب میں بھی گزرچکاہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب