السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی مسجد کے خطیب صاحب سے سنا، وہ برسر منبر کہہ رہے تھے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے ختنہ کو حلال اور مشروع فرمایا ہے۔" ہم نے ان سے کہا کہ ہماری عورتیں تو یہ نہیں کرتی ہیں۔ تو کیا ہم غلطی پر ہیں یا حق پر کہ لڑکیوں کے ختنے نہیں کراتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورتوں کے حق میں ختنہ ان کے لیے باعث کرامت اور ان کی عزت کا بچاؤ ہے۔ اور چاہئے کہ ان کے اس عمل میں ان کی اندام نہانی کا ابھار زیادہ نہ تراشا جائے، کیونکہ آپ علیہ السلام نے اس سے منع فرمایا ہے (یعنی مبالغہ نہ کیا جائے) اور فرمایا:
الفطرة خمس: الختان والاستحداد وقص الشارب وتقليم الظفر ونتف الابط
’’یعنی اعمال فطرت پانچ ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، مونچھیں کترانا، ناخن تراشنا اور بغلوں کے بال نوچنا۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب تقلیم الاظفار،حدیث:5552وصحیح مسلم،کتاب الطہارۃ،باب خصال الفطرۃ،حدیث:257سنن النسائی،کتاب الطہارۃ،باب ذکر الفطرۃ الاختتان،حدیث:9وسنن ابی داود،کتاب الترجل،باب فی اخذ الشارب،حدیث:4198)یہ روایت الفاظ کی تقدیم وتاخیر کے ساتھ مختلف ومتعدد مقامات پر مروی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب